سعودی عرب کی قیادت میں خلیجی اور عرب اتحادی ممالک کی یمن میں شیعہ حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کارروائیاں جاری ہیں اور اس آپریشن میں معاونت اور حمایت کے لیے سعودی قیادت مختلف ملکوں سے رابطے بھی کر رہی ہے۔
سعودی عرب نے پاکستان سے بھی رابطہ کیا تھا جس پر وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ سعودیہ کی ریاستی خودمختاری کے لیے کسی بھی خطرے سے نمٹنے میں پاکستان اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔
لیکن یمن میں جاری آپریشن کے لیے عہدیداروں کے بقول پاکستانی فوجیں بھیجنے کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
سعودیہ باور کرتا ہے کہ حوثی باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے لیکن تہران ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یمن کے تنازع کو پُرامن طریقے سے حل کرنے پر زور دے رہا ہے۔
ایران پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے اور حالیہ مہینوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں ماضی کی نسبت بہتری دیکھنے میں آئی ہے جب کہ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ تعلقات ہیں اور ریاض، اسلام آباد کی ہر موقع پر مدد کرتا آیا اور وزیراعظم نواز شریف کے سعودی شاہی خاندان کے ساتھ گہرے دوستانہ مراسم ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں پاکستان کا غیرجانبدار رہنا گو کہ بہت مشکل ہو گا لیکن اسے اپنے قومی مفاد کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلہ کرنا چاہیئے۔
سینیئر تجزیہ کار ظفر جسپال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کو یہ دیکھنا ہے کہ وہ کس حد تک اس معاملے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔
"جس طرح سعودی عرب سے ہم مدد لیتے رہے ہیں تو جس طرح وہ اب بحران میں ہیں تو مدد تو ان کی کرنی پڑے گی یہ بھی درست ہے کہ اگر امداد میں ہم ان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی واضح کرنا ہو گا کہ ہمارا اپنا قومی مفاد کس طرح حاصل ہوتا ہے اور کیا اس کو نقصان تو نہیں پہنچتا ہے۔۔۔ مگر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جو امداد ہم سعودی عرب کو دے رہے ہیں تو وہ ایران کی براہ راست مخالفت تو نہیں۔ اگر ایرانی اور سعودی بل واسطہ لڑائی میں شامل ہیں اور ہم دونوں ملکوں کے ساتھ تعلقات رکھ رہے ہیں تو ان دونوں ملکوں کو دیکھنا چاہیئے کہ ہم نے بھی اپنے مفادات کا خیال رکھنا ہے"۔
ایران ایک شیعہ ریاست ہے جب کہ سعودی عرب میں سنیوں کی بادشاہت ہے۔ یہ دونوں ممالک تاریخی اعتبار سے حریف چلے آ رہے ہیں۔
پاکستان میں مختلف سیاسی حلقے بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ملک کو درپیش سلامتی کی صورتحال میں اسے کسی بیرونی تنازع میں ملوث ہونے سے احتراز کرنا چاہیئے۔
ایک بڑی سیاسی و مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ
"ہم پاکستان کے مفاد کو سامنے رکھیں اور ہم پڑوسی ممالک سے تعلقات کو سامنے رکھیں ہم سعودی عرب اور عرب ممالک سے اپنے تعلقات کو سامنے رکھیں اور اس حوالے سے پاکستان کا جو نقطہ نظر ہے اس پر نظر رکھیں اور یہ کہ پاکستان کس چیز کا متحمل ہو سکتا ہے اور کس حد تک پاکستان کو جانا چاہیئے"۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف رواں ہفتے ہی پارلیمان میں یہ پالیسی بیان دے چکے ہیں کہ یمن میں جاری آپریشن میں پاکستانی فوج بھیجنے کا نا تو کوئی فیصلہ کیا گیا ہے اور نہ ہی اس بارے میں سعودی عرب سے کوئی وعدہ کیا گیا ہے۔ ان کے بقول اگر کسی مرحلے پر فوجیں بھیجنے کی ضرورت ہوئی تو پارلیمان کو اس بارے میں اعتماد میں لیا جائے گا۔