وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے نام پر ہزاروں افراد کو افغانستان سے بلا کر پاکستان میں بسانے کی پالیسی تباہ کن ثابت ہو رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اکیلا رہ گیا ہے۔
منگل کو پشاور سانحے پر قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اظہارِ خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ دو برس قبل ہمیں کہا گیا کہ ان سے (کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان) سے مذاکرات ہو سکتے ہیں اور اس بنیاد پر ہزاروں 'بے روزگاروں' کو یہاں بسایا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو افغان جنگ ختم ہونے کے بعد فارغ بیٹھے تھے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ان لوگوں نے اپنی زندگی میں کبھی امن نہیں دیکھا تھا، لہٰذا پاکستان آکر بھی یہ نہیں سدھرے۔
اُن کے بقول جن لوگوں نے افغان طالبان کے ساتھ مل کر امریکہ کے خلاف جنگ لڑی اب وہ قرض چکا رہے ہیں، پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں اور افغان طالبان ان سے صرفِ نظر کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ افغان طالبان ماضی میں پاکستانی حکام کے ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ افغان طالبان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ دوحہ معاہدے پر قائم ہیں اور کسی کو بھی اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی میں دہشت گردی کے حوالے سے بحث ایسے موقع پر ہوئی جب پیر کو پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں خود کش حملے میں کم از کم100 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔
'ایسا، بھارت اور اسرائیل کی مساجد میں بھی نہیں ہوتا'
اپنے خطاب میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا، لیکن یہاں کی مساجد میں جس طرح نمازیوں کو قتل کیا جاتا ہے، ایسا بھارت اور اسرائیل کی مساجد میں بھی نہیں ہوتا۔
خواجہ آصف کے بقول پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 126 ارب ڈالرز کا نقصان اُٹھایا اور 83 ہزار افراد جان سے گئے۔ لیکن دنیا نے پاکستان کی ان قربانیوں کا کبھی اعتراف نہیں کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے 50 برس قبل امریکہ کی افغان جنگ میں حصہ بن کر خود دہشت گردی کا بیج بویا اور پھر نائن الیون میں بھی ہم امریکہ کی جنگ کا حصہ بن گئے۔ اب نتیجہ یہ ہے کہ افغانستان سے یہ جنگ نکل کر ہمارے اسکولوں، عوامی مقامات، سرکاری دفاتر اور مساجد تک پہنچ گئی ہے۔
خواجہ آصف کے بقول افغان جنگ کے خاتمے کے بعد ساڑھے چار لاکھ افغان شہری پاکستان آئے، کوئی نہیں جانتا کہ ان میں سے کون دہشت گرد تھا۔ جب ہمارے ہاں ڈالرز کا بحران آیا تو بوریاں بھر بھر کے ڈالرز افغانستان گئے۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ وہ بنگلہ دیش جو ہم سے 50 برس قبل الگ ہوا، آج اس کے حالات ہم سے بہتر ہیں اور وہ ترقی کر رہا ہے اور ہم ایک ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف سے درخواستیں کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: پشاور: پولیس لائنز کی مسجد میں ریسکیو آپریشن مکمل، ہلاکتوں کی تعداد 101 ہو گئی'ٹی ٹی پی کے ہزاروں جنگجوؤں کو یہاں بسانا تباہ کن غلطی تھی'
قومی اسمبلی کے اجلاس سے وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے جنہیں مجاہد بنایا وہ آج دہشت گرد بن گئے ہیں۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی کے کہنے پر لڑائی میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا۔وزیرِ اعظم، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی ایوان میں آئیں گے اور امن و امان کے حوالے سے بریفنگ دیں گے۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ 2010 اور 2013 کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج کمی آئی، لیکن 2021 کے بعد اب یہ واقعات دوبارہ بڑھ گئے ہیں۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ جب دو برس قبل مذاکرات کی بات ہوئی تو کہا گیا کہ ان کی تعداد سات، آٹھ ہزار ہے اور ان کے خاندان یہاں آباد ہیں۔ کہا گیا کہ جو لوگ آئین کے تابع رہ کر معاشرے کا حصہ بننا چاہتے ہیں، انہیں موقع دیا جائے گا۔ یہ سوچ یہ پالیسی اور یہ فیصلہ شاید نیک نیتی سے کیا گیا ہو، لیکن یہ غلط ثابت ہوا، اس کے نتائج آج ہمیں بھگتنا پڑ رہے ہیں۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں اعتماد سازی کے لیے ایسے لوگوں کو بھی چھوڑا گیا جن کو سزائے موت ہوئی تھی۔ لیکن اس اعتماد کا نتیجہ پشاور سانحے کی صورت میں سامنے آیا۔
ان کے بقول تحریک طالبان پاکستان کے ہزاروں جنگجوؤں کو یہاں بسانا تباہ کن غلطی تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم اور عسکری قیادت کو پارلیمان کو اعتماد میں لے کر اب دہشت گردوں کے خلاف ایک اجتماعی پالیسی بنانا ہو گی۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریکِ طالبان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے کیوں کہ 27 افراد کی حالت اب بھی نازک ہے۔ 100 ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پولیس لائنز کے اندر سویلینز کی بھی رہائش گاہیں ہیں اور بظاہر خدشہ یہی ہے کہ یہیں سے سہولت کاری کی گئی ہے۔