پی ڈی ایم حکومت کے 16 ماہ میں خارجہ پالیسی کیسی رہی؟

پاکستان کی قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد موجودہ حکومت کی مدت بھی ختم ہو گئی ہے جس کے بعد اس حکومت کی 16 ماہ کی کارکردگی موضوعِ بحث ہے جن میں سرِفہرست خارجہ پالیسی ہے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ گزشتہ برس جب عمران خان حکومت کا خاتمہ ہوا تو ملک کو خارجہ محاذ پر کئی چیلنجز کا سامنا تھا۔ کئی دوست ممالک پاکستان سے ناراض تھے۔ ایسے میں اُنہوں نے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر توجہ مرکوز رکھی۔

بلاول بھٹو زرداری نے بدھ کو وزارتِ خارجہ میں اپنی الوداعی نیوز کانفرنس میں بھی اسی نوعیت کے دعوے کیے۔

آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ 16 ماہ کے دوران پاکستان کو خارجہ محاذ پر کن چیلنجز کا سامنا رہا۔

'خارجہ امور کا محور بھی معاشی معاونت کا حصول رہا'

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی خاص طور پر امریکہ، مشرق وسطیٰ کے عرب دوست ممالک کے ساتھ تعلقات میں ٹھہراؤ ا اور چین کے ساتھ تعلقات میں بھی بہتری آئی۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے اپنی حکومت گرانے میں امریکہ پر سازش کا الزام عائد کرنے کی وجہ سے پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے۔

سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔ لیکن پاکستان نے اس دور میں چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مدد سے آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کرنے میں کامیابی حاصل کی۔

شہباز شریف کے دورِ حکومت میں ہی امریکہ اور چین کی مخاصمت جاری رہی جب کہ یوکرین تنازع بھی برقرار رہا۔ اس دوران ایران اور سعودی عرب کے سفارتی روابط بھی بحال ہو گئے۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ ڈاکٹر نعیم احمد کہتے ہیں کہ چین، امریکہ مخاصمت کے پیشِ نظر پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں توازن لانے میں کوشاں رہا۔

ماہرین کے مطابق امریکہ کا ماضی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بڑا نمایاں کردار رہا ہے لیکن افغانستان سے اگست 2021 میں انخلا کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی نوعیت تبدیل ہو گئی۔


'پاکستان امریکہ تعلقات میں ماضی جیسی گرمجوشی نہیں رہی'

نعیم احمد کہتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران بھی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اب ماضی جیسی گرمجوشی نہیں ہے۔

ان کے بقول امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کا جھکاؤ اب چین کی طرف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں اسٹرٹیجک پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔

نعیم احمد کہتے ہیں کہ شہباز شریف کی حکومت نے سی پیک کے منصوبوں کو دوبارہ بحال کرنے اور سی پیک کے دوسرے مرحلے کے منصوبوں میں تیزی لانے کے عزم کا اظہار کیا جس کی وجہ سے بیجنگ اور اسلام آباد میں اعتماد بحال ہوا۔ لیکن امریکہ کے ساتھ تعلقات نارمل نوعیت کے رہے ہیں اور شہباز دور میں بھی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں پیش رفت نہیں ہوئی۔

اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ تعلقات میں گرمجوشی اس صورت ہوتی ہے جب باہمی مفادات میں ہم آہنگی ہو لیکن افغانستان سے انخلا کے بعد اب امریکہ کی دلچسپی کم ہو گئی ہے۔

امریکہ چین مسابقت میں تعلقات متوازن رکھنے کا چیلنج

امریکہ کے انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے وابستہ تجزیہ کار ڈاکٹر اسفندیار میر کہتے ہیں کہ افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ نہ صرف پاکستان اور افغانستان بلکہ خطے سے متعلق اپنی مجموعی پالیسی کو مختلف پیرائے میں دیکھ رہا ہے۔

اُن کے بقول ان معاملات میں چین کے ساتھ مسابقت سرِفہرست ہے۔ امریکہ کی زیادہ توجہ ایشیا پیسفک ریجن پر ہے۔ امریکہ کے بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری کو گہرا اور مضبوط کرنے کا مرکوز ہے اور اسفند یار کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے امریکی حکام بھارت کے ساتھ تعلقات کو نہایت اہم قرار دیتے ہیں۔

اسفند یار کہتے ہیں کہ امریکہ اب پاکستان کے ساتھ معمول کے تعلقات رکھنا چاہتا ہے جس طرح دو ممالک کے ہوتے ہیں۔

'افغانستان کے ساتھ تعلقات مشکلات کا شکار رہے'

اسفندر یار کہتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ان کے بقول سب سے زیادہ بگاڑ افغان طالبان کے ساتھ تعلقات میں نظر آیا۔ پاکستان اور کابل کی انتظامیہ کے دوران ہونے والے رابطوں کے باوجود بھی تعلقات میں کوئی مثبت پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔

حال ہی میں پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف سمیت کئی دیگر عہدے داروں نے بھی کابل کا دورہ کیا لیکن اس کے باوجود پاکستان اور کابل کی طالبان انتٖظامیہ پاکستان کے تحفظات دور کرنے میں بظاہر ناکام نظر آتی ہے۔

اگرچہ پاکستان کو یہ توقع تھی کہ طالبان کی کابل میں واپسی کے بعد پاکستان میں پاکستان مخالف شدت پسندوں کی کارروائیوں میں کمی ہو گی۔ لیکن اس کے برعکس پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملوں میں زیادہ شدت دیکھی گئی ہے۔

حال ہی میں پاکستان میں ہونے والے حملوں کے بعد پاکستان نے الزام عائد کیا کہ ان میں سے بعض حملوں میں افغان شہری ملوث ہیں جس کے بعد پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے کابل سے مطالبہ کیا کہ افغانستان میں مبینہ طور پر موجود شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

اگرچہ کابل کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن پاکستان کی سیکیورٹی معاملات سے نمٹنا حکومت پاکستان کی ذمے داری ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں ہونے والے حملوں میں ذمے داری یا تو ٹی ٹی پی یا اس سے منسلک گروپ کرتے رہے ہیں۔

تجزیہ نعیم احمد کہتے ہیں کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کیوں کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنے مبینہ تعلق کو ختم کرنے پر تیار نہیں ہوں گے۔

پاکستان بھارت تعلقات

دوسری جانب پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔ رواں برس مئی میں بھارت میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے بھی شرکت کی۔

بعدازاں ایس سی او کے ورچوئل اجلاس میں شہباز شریف بھی شریک ہوئے، لیکن دونوں ملکوں کے تعلقات مجموعی طور پر سرد مہری کا شکار رہے۔

اگست 2019 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی روابط پوری طرح بحال نہیں ہوئے ہیں جب کہ تجارتی روابط بھی معطل ہیں۔

حال ہی میں پاکستان کے وزیرِ اعطم شہباز شریف نے بھارت کا نام لیے بغیر نئی دہلی کو مذاکرات کی دعوت دی لیکن بھارت کی طرف سے کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔

تجزیہ کار اسفند یار کہتے ہیں کہ 16 ماہ کے دوران بھارت کے ساتھ تناؤ میں کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر سیز فائر قائم رہا اور ایس سی او کی سطح پر پاکستان اور بھارت کے درمیان رابطے بھی ہوئے۔

روس یوکرین تنازع اور پاکستان

روس یوکرین تنازع کے باوجود پاکستان دونوں ملکوں کے ساتھ تعلقات کو متوازن رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ مغربی ممالک کی خواہش کے باوجود پاکستان یوکرین تنازع میں اپنی غیر جانب دار پوزیشن برقرار رکھے ہوئے ہے۔

پاکستان کے روس کے ساتھ تجارتی اور سفارتی روابط میں بتدریج بہتری آئی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے بھی رواں سال جنوری میں ماسکو کا دورہ کیا۔ حال ہی میں پاکستان نے روس سے تیل بھی درآمد کیا۔

تجزیہ کار نعیم احمد کہتے ہیں کہ روس کے ساتھ تعلقات کی وجہ ایس سی او فورم اور چین ہے۔ اُن کے بقول پاکستان کی طرح روس بھی ایس سی او کا رُکن ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کو خارجہ محاذ پر اب بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہے، لہذٰا آنے والی حکومت کو معاشی میدان کے ساتھ ساتھ خارجہ محاذ پر بھی سخت محنت کرنا ہو گی۔