افغانستان کی صورت حال کے بارے میں بدھ کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں ہونے والی چھ ملکی کانفرنس میں افغانستان میں امن و سلامتی کے لیے کوششوں کو تیز کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
اس کانفرنس میں روس کے علاوہ پاکستان، افغانستان، چین، بھارت اور ایران کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں بتایا کہ ماسکو میں ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس گروپ میں وسط ایشیائی ممالک کو بھی شامل کیا جائے۔
نفیس ذکریا نے کہا کہ ماسکو میں منعقدہ ایک روزہ کانفرنس میں افغانستان میں امن استحکام کے بارے تبادلہ خیال کیا گیا۔
اُنھوں نے کہا کہ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ افغانوں کی زیر قیادت امن و مصالحت کی کوششوں کو مزید تیز کیا جائے۔ نفیس ذکریا نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کے لیے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کرتا ہے اور یہ توقع کرتا ہے کہ علاقائی ممالک اس بارے میں تعمیری کردار ادا کریں گے۔
ماسکو میں ہونے والی کانفرس میں افغان وزارت خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار اشرف حیدری نے کہا تھا کہ افغانستان کی حکومت امن پر پختہ یقین رکھتی ہے اور اس نے تشدد کی راہ ترک کرنے والے مسلح گروہوں کے ساتھ مصالحت کی ہر ممکن کوشش کی۔
اُنھوں نے کابل حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان مذاکرات کے بعد کامیاب سیاسی معاہدے کا بھی ذکر کیا۔
پاکستان کی طرف سے اس کانفرنس میں نمائندگی سفارت کار منصور علی خان نے کی، وہ وزارت خارجہ میں افغانستان، ایران اور ترکی کے شعبے کے ڈائریکٹر ہیں۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اُن کا ملک افغانستان میں امن کا خواہاں ہے۔
’’پاکستان افغانستان میں امن دیکھنا چاہتا ہے، کیوں کہ افغانستان میں امن پاکستان اور پورے خطے کے مفاد میں ہے۔۔۔ اس نقطہ نظر سے کئی ایسے اقدامات یا فورمز ہیں جو افغانستان میں امن اور مصالحت کے حوالے سے ہیں اور پاکستان نے اُن میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔‘‘
پاکستان کے سابق سفارت کار عزیز احمد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان کی صورت حال پر تمام ہی پڑوسی ممالک کو تشویش ہے اور اُن کے بقول اس بارے میں جتنے بھی مشاورتی اجلاس ہوں وہ سود مند ہوں گے۔
’’مشاورتی عمل جتنا بھی ہو، وہ اچھا ہے تاکہ ہم آہنگی پیدا ہو سکے۔۔۔ ایک دوسرے کے خیالات کا پتہ چل سکے۔۔۔ سب پڑوسیوں کو تشویش ہے کہ کسی نا کسی طرح افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو سکے اور اس کے لیے مشاورتی عمل میں کوئی برائی نہیں۔‘‘
عزیز احمد خان نے روس، بھارت اور ایران کا افغانستان سے متعلق کانفرنس میں شامل ہونا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ تمام علاقائی ممالک اس بارے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ دیرپا امن کے حصول کے لیے افغانوں کی زیر قیادت ہی کوششوں کو آگے بڑھانا ہو گا اور اُن کے بقول دیگر ممالک اس بارے میں سہولت کار کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکہ ماسکو میں ہونے والی کانفرنس میں شامل نہیں لیکن اُن کے بقول افغانستان میں حقیقی امن کے قیام کے لیے امریکہ کا کردار اہم ہے اور اُسے اپنے طور پر اس بارے میں کوششیں جاری رکھنی چاہیئں۔
تاہم فوری طور یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وسط ایشیائی ممالک کی اس فورم میں شمولیت سے افغانستان میں قیام امن کے لیے کی جانی والی کوششوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔