طلب کم ہونے کے باوجود ڈالرروپے کے مقابلے میں مہنگا کیوں ہورہا ہے؟

PAKISTAN-STOCKS/

پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ ملکی کرنسی کی حالیہ گرواٹ کی وجہ معاشی حالات نہیں بلکہ سیاسی ہلچُل رہی ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ مرکزی بینک اور حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات کے باعث رواں ماہ کی 18 تاریخ تک گزشتہ سال جولائی کے مقابلے میں درآمدات میں 20 فیصد کمی لائی جاچکی ہے۔ اور انہیں امید ہے کہ اس ماہ کے آخر میں درآمدی بل گزشتہ ماہ یعنی جون سے 2 ارب ڈالر تک کم رہے گا۔ اس لئے ان کے خیال میں تجارتی بنیادیں ٹھیک ہوچکی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے ہونے والا معاہدہ بالکل ٹریک پر ہے جبکہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد دیگر فنڈنگ ایجنسیوں اور دوست ممالک سے بھی امداد ملنے کی قوی امید ہے۔

مفتاح اسماعیل نے مزید کہا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں حالیہ کمی کا تعلق عالمی حالات سے بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یورو، برطانوی پاؤنڈ، جاپانی ین کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں ڈیڑھ ماہ میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن امریکہ میں 20 سال میں سب سے زیادہ شرح سود بڑھنے کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستانی معیشت مشکلات کا شکار کیوں؟

تاہم انہوں نے اسے بھی تسلیم کیا کہ پچھلے دو روز میں روپے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ میں ملکی سیاسی صورتحال کا بڑا ہاتھ تھا جبکہ معاشی لحاظ سے ان کے دعوے کے مطابق ایسے کوئی حالات نہیں جس کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی آئی ہو۔

لیکن ایسے میں کئی تبصرہ نگاروں اور تجزیہ کاروں کے خیال میں ملک میں افواہوں کا بازار گرم کرکے کرنسی کی گرواٹ سے خُوب منافع بھی کمایا جارہا ہے۔ جبکہ اس ساری صورتحال میں مرکزی بینک جو ڈیڑھ ماہ سے بغیر مستقل گورنر کے کام کررہا ہے، کی جانب سے بھی غیر موثر ریگولیٹری کنٹرول کی وجہ سے ایکسچینج ریٹ پر بینکوں کی اجارہ داری قائم ہوچکی ہے۔

جبکہ کچھ تجزیہ کاروں کے خیال میں روپے کی قدر میں کمی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے کہنے پر کی جارہی ہے۔

"ڈالر کی قیمت میں اضافے کا تعلق طلب اور رسد کے فرق سے ہے"

لیکن فنانشل مارکیٹس پر نظر رکھنے والے ادارے میٹِس گلوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر کا کہنا ہے کہ روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ طلب اور رسد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اتوار کو پنجاب میں 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آنے اور اس سے ایک غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہونے سے امپورٹرز نے امریکی ڈالر خریدنے میں جلدی کی۔ انہیں خدشہ تھا کہ حکومت کو درپیش عدم استحکام کی وجہ سے آئی ایم ایف سے معاہدہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ جس سے ملک میں ڈالر کی رسد آنے والے چند ماہ میں مزید کمی آنے کی توقع ہے۔ رسد کم ہونے کی صورت میں ملک کے اندر ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگا اور یوں انہوں نے بینکوں سے بڑی تعداد میں ڈالرز حاصل کرنا چاہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان اب تک خود انحصاری کی پالیسی بنانے میں ناکام رہا ہے، ڈاکٹر زبیر اقبال

نتیجے کے طور پر , ان کے بقول، بینکوں کے پاس ڈالرجب کم پڑنے لگے تو انہوں نے اوپن مارکیٹ سے مہنگے داموں ڈالر خریدے اور یوں مزید مہنگے دام فروخت کئے، جس سے قیمت بڑھتی چلی گئی۔ جبکہ سونے پہ سہاگہ یہ کہ غیر یقینی حالات میں برآمد کنندگان، بیرون ملک اپنے بیچے گئے سامان کے عوض امریکی ڈالر وطن واپس لانے کا عمل بھی جان بوجھ کر سُست کردیتے ہیں، نتیجے کے طور پر بینکوں کے پاس ڈالر کی قلت مزید بڑھ جاتی ہے۔ جس سے طلب کم ہونے کے باوجود ڈالر کی قیمت افواہوں اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے تین روز میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔

بین الاقوامی حالات اور عالمی منڈیوں میں بُلند قیمت بھی ذمہ دار قرار

دوسری جانب ایک اور تجزیہ کار فضیل زبیر احمد نے کہا کہ اگرچہ بینک اپنے منافع کے لیے ہی کام کرتے ہیں اور ایکسچینج ریٹ طے ہونے میں بھی وہ اپنا منافع رکھتے ہیں لیکن اس منظر نامے میں کارٹیلائزیشن یعنی اجارادہ داری قائم کرنا کچھ مشکل ہے۔ ان کے خیال میں بین الاقوامی منڈی میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے روپے کی ناقدری بڑھ رہی ہے۔ اور یہ صورتحال ٹھیک ہونے تک پاکستان میں حکومت کو ایسی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ کیونکہ پاکستان کا معاشی پہیہ چلانے کا بڑا دارومدار درآمدات پر ہے۔ لیکن مرکزی بینک مختلف اقدامات کے ذریعے درآمدات کی محدود اجازت دے رہا ہے کیونکہ اسٹیٹ بینک کے پاس خود امریکی ڈالر کے بڑے محدودذخائر رہ چکے ہیں۔

"روپے کی قدر میں کمی مارکیٹ کے متعین کردہ نظام کی وجہ سے ہے"؛ اسٹیٹ بینک

ادھر پاکستان کے اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں حالیہ حرکت مارکیٹ کے متعین شرح مبادلہ کے نظام کی ایک خصوصیت ہے۔ جس کے تحت کرنٹ اکاؤنٹ کی پوزیشن، متعلقہ خبریں، اور ملکی غیر یقینی صورتحال مل کر کرنسی کے روزانہ کے اتار چڑھاو کا تعین کرتی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں: حکومت مخمصے میں، معیشت مشکل میں

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دنیا بھر کی دیگر کرنسیوں کی طرح روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں گری ہے۔ اور دسمبر 2021 سے اب تک اس کی قدر میں 18 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ یوں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی حالیہ گراوٹ بڑے پیمانے پر ایک عالمی رجحان کا حصہ ہے۔


جبکہ رواں ہفتے کے صرف پہلے تین روز میں 6 فیصد سے زائد کمی آچکی ہے اور انٹر بینک میں بدھ کے روز کاروبار کے اختتام پر ایک امریکی ڈالر کی قیمت ریکارڈ 224 روپے 92 پیسے پر جاپہنچی ہے۔ تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی ڈالر میں اس قدر تیزی سے اضافہ ملک میں مہنگائی کو مزید تقویت دے گا، حکومت کے بیرونی قرضوں میں اضافہ جبکہ تجارتی خسارہ مزید بڑھنے کا امکان ہے جو جون میں ختم ہونے والے مالی سال کے آخر میں ریکارڈ 48 ارب ڈالرز کو تجاوز کرگیا تھا۔