پاکستان میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ایک دن میں سب سے زیادہ کیسز اور ہلاکتیں سامنے آئی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 520 کیسز کا اضافہ ہوا جس کے بعد کیسز کی مجموعی تعداد 6505 ہو گئی ہے جب کہ 17 افراد کی اموات کے ساتھ کل ہلاکتیں 124 ہوگئی ہیں۔
پنجاب میں کیسز کی تعداد 3217، سندھ میں 1668، خیبرپختونخوا میں 912، بلوچستان میں 280، اسلام آباد میں 145، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 237 کیسز سامنے آئے ہیں۔ مرض سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد 1645 ہے۔
پاکستان میں کرونا کے مشتبہ مریضوں کے ٹیسٹ کیے جانے کی استعداد بڑھانے پر بھی کام کیا جا رہا ہے اور گزشتہ 24 گھنٹوں میں 5540 ٹیسٹ کیے گئے جس سے ان کی مجموعی تعداد 78979 ہوگئی ہے۔
کیسز بڑھ کیوں رہے ہیں؟
پاکستان میں کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس بارے میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے ڈاکٹر ممتاز علی خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ وائرس اب مقامی سطح پر پھیل رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول دو ہفتے پہلے اس کا مقامی سطح پر پھیلاؤ 30 فی صد تھا لیکن اب یہ بڑھ کر 50 فیصد سے زائد ہوچکا ہے ۔
ڈاکٹر ممتاز کا کہنا تھا کہ آئندہ دو ہفتے خاصے اہم ہیں کیونکہ مقامی سطح پر ان کے پھیلاؤ کے باعث کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت کیسز کی تعداد زیادہ سامنے آنے کی ایک وجہ ٹیسٹ زیادہ ہونا بھی ہے۔ جب کرونا وائرس سامنے آیا تھا اس وقت صرف این آئی ایچ کے پاس یہ سہولت موجود تھی لیکن اب ملک میں 42 مقامات پر ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔
این آئی ایچ میں ٹیسٹنگ کی سہولت کے بارے میں ڈاکٹر ممتاز کا کہنا تھا کہ اس وقت روزانہ ایک ہزار ٹیسٹ کرنے کی سہولت موجود ہے جب کہ اس میں مزید اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
ان کے مطابق این آئی ایچ یومیہ 20 ہزار ٹیسٹ کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔
مقامی سطح پر پھیلاؤ
کرونا وائرس اب بیرون ملک سے آنے والے افراد کے بجائے مقامی سطح پر دوسرے افراد تک منتقل ہو رہا ہے جب کہ اس کی وجہ سے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
وزارت صحت کے مطابق حالیہ دو ہفتوں میں مقامی سطح پر پھیلاؤ 58 فی صد تک بڑھ چکا ہے۔
وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس وقت روزانہ پانچ ہزار سے زائد ٹیسٹ روزانہ کیے جا رہے ہیں اور اس تعداد کو اپریل کے آخر تک 25 ہزار تک بڑھا دیا جائے گا۔ جس کے بعد اب تک کی شرح کے مطابق روزانہ ایک ہزار تک کیسز رپورٹ ہو سکتے ہیں۔
اس صورت حال کے باعث ماہرین سماجی دوری کا طریقہ زیادہ سے زیادہ اختیار کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس وائرس کو روکنے کا صرف یہی ایک طریقہ ہے۔
ملک میں حفاظتی سامان کی درآمد
کرونا وائرس کی روک تھام اور علاج معالجے کے لیے چین سے حفاظتی و طبی سامان لانے کا سلسلہ جاری ہے۔
نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے حکام کے مطابق بیجنگ سے پی آئی اے کی پرواز کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام اور علاج معالجے کے لیے طبی و حفاظتی سامان کی بڑی کھیپ لے کر اسلام آباد پہنچی۔
Your browser doesn’t support HTML5
حفاظتی و طبی سامان میں کرونا وائرس سیفٹی کٹس، ماسک، تھرمامیٹرز اور ادویات شامل ہیں۔
اس سے قبل این ڈی ایم اے کی طرف سے خریدے گئے سامان اور امدادی اشیا کے کئی جہاز پاکستان پہنچ چکے ہیں۔
حکام کے مطابق بیشتر اسپتالوں میں طبی عملے کو تمام حفاظتی سامان پہنچا دیا گیا ہے۔
لاک ڈاؤن میں نرمی
وزیراعظم عمران خان کی طرف سے مختلف صنعتوں کو کھولنے کے اعلان کے بعد سے لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی ہے۔ جس کے بعد کئی دکانیں مزید گئی ہیں اور تعمیرات سے متعلق سامان اور دیگر صنعتوں کا سامان فروخت کیا جا رہا ہے۔
لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد شہروں میں سڑکوں پر ٹریفک میں اضافہ ہوا ہے اور کاروبار سے منسلک افراد روزگار کے لیے گھروں سے باہر نکلے ہیں۔
وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے لاک ڈاؤن میں نرمی عوام کی زندگیوں میں آسانی، اشیائے ضروریہ کی بروقت فراہمی اور دیگر سہولیات کو یقینی بنانے کے لیے کی ہے۔
ان کے بقول اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کرونا کا چیلنج ختم ہوگیا ہے۔
ایک ٹوئٹ میں فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ وباء سے جنگ جاری ہے۔ ہم نے خود کو بھی محفوظ رکھنا ہے اور دوسروں کو بھی بچانا ہے۔
احساس پروگرام کے تحت امدادی رقوم کی تقسیم
وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ایک کروڑ 20 لاکھ افراد میں 12 ہزار روپے کی تقسیم کے حوالے سے احساس پروگرام کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوگیا ہے۔
احساس پروگرام میں براہ راست ایس ایم ایس کرنے والوں کو یہ رقوم تقسیم کی جا رہی ہیں۔
پاورٹی ایلیویشن اینڈ سوشل سیفٹی ڈویژن کے مطابق 9 اپریل سے شروع ہونے والے اس پروگرام کے تحت 15 اپریل تک 31 لاکھ 34 ہزار 71 افراد میں 37 ارب 60 کروڑ روپے سے زائد تقسیم کیے گئے۔