پاکستان نے سعودی عرب کو ایک ارب ڈالر لوٹانے کے لیے چین سے قرض لے لیا

فائل فوٹو

پاکستان نے سعودی عرب کو قرض کی ادائیگی کے لئے چین سے ایک ارب ڈالر حاصل کئے ہیں۔

وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق چین نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کا اضافی قرض دیا ہے جس میں سے سعودی عرب کے قرضے کی واپسی کی جائے گا۔

یہ دوسری مرتبہ ہے کہ چین پاکستان کی مدد کے لیے سامنے آیا ہے۔ اس سے قبل رواں سال اگست میں پاکستان نے سعودی عرب کے مطالبے پر چین سے رقم لے کر اسے ایک ارب ڈالر واپس کیے تھے۔

ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان نے منگل کو سعودی عرب کو ایک ارب ڈالر کی رقم ادا کر دی ہے جب کہ باقی رہ جانے والے ایک ارب ڈالر بھی پاکستان آئندہ ماہ ادا کر دے گا۔

تاہم وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر سٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر نے کہا کہ وہ اس معاملے پر کسی قسم کی معلومات دینے سے قاصر ہیں۔

وزارت خزانہ کے حکام کا بھی کہنا ہے کہ یہ دو ممالک کے درمیان خفیہ معاملہ ہے جس کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا جاسکتا۔

مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں پاکستان نے سعودی عرب سے حاصل کئے گئے تین ارب ڈالر قرض میں سے دو ارب ڈالر تین فیصد سود کے ساتھ واپس کر دیے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ عرصے میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں حالیہ عرصے میں سرد مہری آئی ہے، جس کا واضح اظہار وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے کردار پر تحفظات کے بعد ہوا۔

SEE ALSO: پندرہ سو پاکستانیوں کی سعودی عرب سے بے دخلی، پس منظر کیا ہے؟

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان سعودی عرب سے حاصل کردہ قرض کی ادائیگی کے لیے متبادل تلاش نہ کر پاتا تو اس کے لیے آئی ایم ایف کے پروگرام کو جاری رکھنا مشکل ہو جاتا۔

سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب کے قرض کی واپسی اور چین سے ادھار رقم کا حصول معمول کا ایک عمل ہے جو کہ ملکوں کے دوطرفہ تعلقات کے تحت ہو رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے بیرون ملک قرضے سو ارب سے زائد ہیں اور سالانہ دس سے پندہ ارب ڈالر قرض کی واپسی کرنا ہوتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس عمل میں کئی قرض ادا ہو جائیں گے اور کئی کی جگہ نئے قرض لے لیں گے۔

چین کے ساتھ قرض کے حالیہ حصول کو مغرب تنقیدی نظر سے دیکھ سکتا ہے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستان چین کے زیر اثر ہو گیا ہے۔

پاکستان کو غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کی کم سے کم حد برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے، جو کہ زیادہ تر غیر ملکی قرض سے حاصل کیے گئے ہیں۔

مالیاتی امور کے صحافی مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ پاکستان اپنے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھنے کے لئے دوست ممالک سے قرض حاصل کرے گا، جو کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے لئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں اضافے کے باوجود فنانشل اکاؤنٹ منفی ایک اعشاریہ 33 ہے جو کہ پاکستان کو دوبارہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر مجبور کرے گا۔

وزیر اعثم عمران خان کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات، فائل فوٹو

مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ اس سارے عمل میں پاکستان کا چین پر انحصار بڑھ رہا ہے۔

عودی عرب نے 2018 کے آخر میں پاکستان کو چھ ارب 20 کروڑ ڈالرز کا مالی پیکیج دیا تھا جس میں تین ارب ڈالرز کی نقد امداد اور تین ارب 20 کروڑ ڈالرز کی سالانہ تیل و گیس کی موخر ادائیگیاں شامل تھیں۔

یہ معاہدہ تین سال تک قابلِ توسیع تھا۔ تاہم اگست میں سعودی عرب کے مطالبے پر پاکستان کو فراہم کردہ تین ارب ڈالرز میں سے ایک ارب ڈالز واپس کرنے پڑے۔

سالانہ تین ارب ڈالر کے ادھار تیل کا معاہدہ بھی معطل ہے اور گزشتہ مالی سال میں پاکستان نے صرف پونے دو ارب ڈالر کی سہولت حاصل کی۔

وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے مشرق وسطیٰ امور طاہر محمود اشرفی نے گزشتہ ماہ وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ پاکستان نے سعودی عرب کو دسمبر میں دو ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے جس پر دوست ملک کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان معاشی مشکلات کا شکار ہے اور آئندہ سال کے آغاز پر اسے متحدہ عرب امارات کو دو ارب ڈالر بھی ادا کرنے ہیں۔ جب کہ چین سے حاصل کیے جانے والے تین ارب ڈالرز کی واپسی کی مدت بھی آئندہ سال کے وسط میں ختم ہو رہی ہے۔

خیال رہے کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے اکاؤنٹ میں 15 دسمبر 2018 کو تین سالہ مدت کے لیے رقم ڈالی گئی تھی جسے وہ سعودی مطالبے پر مقررہ مدت سے پہلے واپس کر رہا ہے۔