جبری گمشدگیوں کے معاملے پر دانشوروں اور اہل علم کا اظہار تشویش

فائل فوٹو

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات کے خلاف ملک کے سماجی حلقے آواز بلند کرتے آ رہے ہے لیکن اب ملک کے معروف دانشوروں نے بھی ان واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لاپتا افراد کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔

اس تشویش کا اظہار ایک تحریری پٹیشن میں کیا گیا ہے جو تقریباً ایک سو دانشوروں اور اساتذہ نے پاکستان کے صدر، وزیر اعظم، چیف جسٹس اور فوج کے سربراہ کے نام لکھی ہے۔

اس میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ لوگوں کو زبردستی لاپتا کر کے ملک میں اظہار رائے کے حق کو محدود کیا جارہا ہے جس سے کھل کر بغیر خوف کے بات کہنے کی فضا سکڑ رہی ہے۔

پیٹشن میں مزید کہا گیا کہ جبر ی گمشدگیوں کے واقعات ملک میں عدم تحفظ کے احساس اور سماجی خوف کا باعث بن رہے ہیں۔

اس پٹیشن کی تائید کرنے والوں میں ملک کے معروف پروفیسر پرویز ہودبھائی بھی شامل ہیں۔ اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب ایسے واقعات میں وہ لوگ نشانہ بن رہے ہیں جو آزادی اظہار کا حق استعمال کرتے ہوئے حکومت اور ریاست کے بعض اداروں کی پالیسوں پر بات کرتے ہیں۔

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر انسانی حقوق کے ادارے اور سرگرم کارکن آواز بلند کرتے ہوئے ایسے واقعات کی روک تھام کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور گزشتہ سالوں سے یہ معاملہ پارلیمان اور اعلیٰ عدلیہ میں زیر بحث چلا آرہا ہے۔

انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور ماہر قانون دان کامران عارف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک کے دانشوروں کی طرف سے یہ معاملہ اٹھانے سے لاپتا افراد کو بازیا ب کروانے کے مطالبات کو تقویت ملے گی۔

"یہ انسانی حقوق کی سنگین قسم کی خلاف ورزی ہے اور اس پر آواز اٹھانا سب لوگوں کا فرض ہے اور ہمارے دانشوروں نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔

یہ پاکستان میں مسئلہ ہے اور سپریم کورٹ بھی اس معاملے پر فیصلے دے چکی ہے اور لاپتا افراد سے متعلق حکومت نے ایک کمیشن بھی قائم کر رکھا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے یہ ایک مسئلہ ہے جسے اس پٹیشن نے دوبارہ نمایاں کر دیا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ شہریوں کا تحفظ اور ان کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور ان کے بقول حکومت کو اس معاملے پر توجہ دینی چاہیے۔

لاپتا ہونے والے بعض افراد کے اہل خانہ اپنے عزیزوں کی گمشدگی کا الزام خفیہ اداروں پر عائد کرتے ہیں۔ لیکن سکیورٹی کے ادارے ایسے الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں کہ ریاستی ادارے جبری گمشدگیوں کے واقعات میں ملوث ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ آزادی اظہار کے حق پر یقین رکھتی ہے اور لاپتا افراد کے معاملے کو سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے ایسے معاملات کے تدارک کے لیے اقدام بھی کر رہی ہے۔