پاکستان میں آباد مسیحی کمیونٹی ایک روز قبل بلوچستان میں ہونے والے حملے کے بعد سے بہت خوفزدہ ہے اور وہاں آباد دوسری اقلیتیں بھی اپنی سلامتی کے حوالے سے تشویش کا شکار رہتی ہیں۔ اس سلسلے میں پروگرام جہاں رنگ میں میزبان قمر عباس جعفری نے پاکستان کے حقوق انسانی کمشن کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن ۔ سینٹر فار سوشل جسٹس کے پیٹر جیکب اور مذہبی اسکالرمولانا طاہر اشرفی سے گفتگو کی۔
ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی ایک وجہ حکومت کی پالیسیاں ہیں جن میں اس وقت جب معاملہ مذہب کا ہو تو ان کا رویہ معذرت خواہانہ ہو جاتا ہے۔ اور وہ اس قسم کی کارروائیاں نہیں کر پاتے جو انہیں کرنی چاہیں۔
پیٹر جیکب کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت مذہبی عدم رواداری اور انتہا پسندی دونوں موجود ہیں اور ان کی مختلف سطحیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ لوگ موجود ہیں جو نظریاتی اور فکری طور پر اس بات کو لازمی سمجھتے ہیں کہ جب معاملہ مذہبی اقلیتوں کا ہو تو نفرت انگیزی اور انتہا پسندی سے کام لیا جائے۔
اس سوال کے جواب میں کہ وہ حکومتی اقدامات سے کس قدر مطمئن ہیں، انہوں نے کہا کہ حکومت کام کررہی ہے ۔ مذہبی تہواروں کے موقع خصوصي سیکیورٹی کے انتظامات کئے جاتے ہیں اور وزارت داخلہ نیشنل انٹرنل سیکیورٹی پالیسی پر نظر ثانی کر رہی ہے۔ اور اس سلسلے میں انہوں نے بھی تجاویز دی ہیں کہ کس طرح نظام تعلیم اور ذرائع ابلاغ کو استعمال کر کے ملک میں مذہبی رواداری کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
مولانا اشرفی کا کہنا تھا کہ پیغمبر اسلامﷺ نے بنی نجران سے معاہدہ کرکے قیامت تک کے لئے اقلیتوں کے تحفظ کا منشور دےدیا کہ کس طرح ان کی جان، مال اور عبادت گاہوں کا تحفظ کیا جانا چاہیئے۔ اور اب جو اقلیتوں کے ساتھ زیادتی کرتا ہے وہ اس منشور کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خدا قرآن میں کہتا ہے کہ تمہارا دین تمہارے لئے اور ہمارا دین ہمارے لئے۔ انہوں مزید کہا کہ پاکستان میں اس حوالے سے اب حالات بہت بہتر ہیں مگر مزید بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ملک اتنا ہی مسلمانوں کا بھی ہے جتنا اس ملک میں رہنے والے غیر مسلموں کا ہے۔ کسی گروہ یا جماعت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی سوچ اور فکر دوسروں پر مسلط کرے۔
مزید تفصیلات کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5