پنجاب کے شہر ملتان میں قائم بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے ایک وزیٹنگ پروفیسر جنید حفیظ کو توہین مذہب کے جرم میں سزائے موت سنائے جانے کے بعد یہ معاملہ ایک بار بھر عالمی میڈیا کا موضوع بن گیا ہے اور سوشل میڈیا پر اس فیصلے پر تبصرے جاری ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور انسانی آزادیوں کے فروغ کے لیے کام کرنے والے کئی عالمی ادارے اس قانون کو انتہائی سخت قرار دیتے ہوئے یہ کہتے رہے ہیں کہ اکثر واقعات میں اس قانون کا استعمال غلط طور پر ہوا اور بعض افراد اور گروپس نے اپنے مفادات اور انتقام کے لیے توہین مذہب کی شکایات درج کرائیں۔
بعض واقعات میں یہ بھی دیکھا گیا کہ جائیدادوں پر قبضہ کرنے کے لیے اس قانون کو ایک ذریعہ بنایا گیا۔
پاکستان میں توہین مذہب ایک انتہائی حساس اور نازک معاملہ ہے۔ ماضی میں کچھ ایسے واقعات بھی پیش آ چکے ہیں جن میں توہین مذہب کی افواہ پھیلنے پر، ہجوموں نے بغیر تحقیق کیے، لوگوں کی املاک پر حملے کیے اور انہیں نذر آتش کیا۔ ایسے واقعات میں کئی بے قصور لوگ ہلاک بھی ہوئے۔
توہین مذہب کے الزام کا ایک خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ وکیل ایسے مقدمات لینے اور جج الزام کے خلاف فیصلہ دینے سے گھبراتے ہیں۔ جنید حفیظ کے معاملے میں ان کا کیس لینے والے دو وکیل قتل کر دیے گئے اور کئی وکیلوں کو دھمکیاں دیں گئیں۔ تحفظ کے پیش نظر یہ مقدمہ بھی کھلی عدالت کی بجائے جیل کے اندر چلایا گیا۔
پنجاب کے ایک سابق گورنر سلمان تاثیر کو ان کے ایک محافظ نے اسلام آباد میں فائرنگ کر کے اس لیے قتل کیا، کیونکہ انہوں نے توہین مذہب کے الزام میں قید آسیہ بی بی کی حمایت میں بات کی تھی۔ بعد ازاں، ان کے قاتل کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا۔ جب آسیہ بی بی کو سپریم کورٹ نے رہا کیا تو ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔
اعلیٰ عدالتیں توہین مذہب کی سزاؤں کو عموماً ناکافی شواہد کی بنا پر ختم کر دیتی ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نچلی سطح پر کتنا دباؤ ہوتا ہو گا۔
پاکستان کی حکومت نے ایسے متعدد اقدامات کیے ہیں جن سے توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کو روکا جا سکے۔ لیکن انسانی حقوق کے ادارے اب بھی مزید اقدامات پر زور دیتے ہیں۔
جنید حفیظ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے، فرحت اللہ بابر نے سوال اٹھایا کہ آیا جنید کا مقدمہ شفاف انداز میں چلایا گیا تھا اور کیا اسے شفاف انصاف فراہم کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ اس فیصلے کو اعلیٰ عدالتیں ختم کر دیں گی۔
Can anyone say that Junaid Hafeez, sentenced to death, got fair trial? 8 judges transferred during 5 years, defence counsel shot dead,, killers still at large, fear kept away all potential defence counsels. Hope & pray verdict is overturned on appeal. https://t.co/1YHBKow5Kh
— Farhatullah Babar (@FarhatullahB) December 21, 2019
ٹوئٹر کے ایک صارف پرویز عالم نے لکھا ہے کہ یہ افسوس ناک ہے کہ ایک ماہر تعلیم اور فل برائٹ اسکالر کو توہین مذہب کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ پاکستان اپنے ذہین افراد کو مار رہا ہے۔
This is so tragic! Academic & US Fulbright scholar Junaid Hafeez sentenced to death on the charge of blasphemy. Pakistan is killing its bright people. In a tragic-comic verdict, the judge also slapped a fine of RS 100K against Hafeez. https://t.co/UNnTCXAxpR
— Pervaiz Alam (@pervaizalam) December 21, 2019
ایک ٹوئٹر صارف، سلمان سکندر نے پاکستان کی انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری کی ایک تصویر شائع کی ہے جس میں وہ اپنے دفتر میں سو رہی ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی یہ حالت ہے۔
Condition of Human rights in Pakistan.#JunaidHafeez pic.twitter.com/py3i0XJAMN
— Salman Sikandar (@SALSIKandar) December 21, 2019
آئی آر ایران نیوز سروس کی ٹوئٹ میں جنید حفیظ کی سزائے موت کے فیصلے پر تبصرے میں کہا گیا ہے کہ ایران پھانسی دینے کے پاکستان کے حق کی مکمل حمایت کرتا ہے۔
Islamic Republic of Iran fully supports Pakistan%27s right to execute blasphemers.#blasphemy #JunaidHafeez
— IR Iran News Service (@iri_news) December 21, 2019
تجزیہ کار مائیکل کوگل مین نے اپنی ٹوئٹ میں عدالتی فیصلے پر لکھا ہے کہ یہ ایک خوفناک خبر ہے۔ پاکستان کے ایک ذہین ماہر تعلیم، فل برائٹ اسکالر کو قانونی عمل میں طویل عرصے تک قید تنہائی میں رکھنے اور اس کا دفاع کرنے والے دو وکیلوں کے قتل کے بعد اسے یہ سزا سنائی گئی ہے۔
Horrible news. This is one of Pakistan’s brightest young academics, and a Fulbright scholar, suffering this worst possible legal fate after a hellish few years that included solitary confinement-and the assassination of his lawyer. What a terrible shame. https://t.co/Rr1QnyqclM
— Michael Kugelman (@MichaelKugelman) December 21, 2019
تجزیہ کار عائشہ صدیقہ نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ یہ ایک بہت افسوس ناک دن ہے۔ ایک ذہین نوجوان جنید حفیظ نے اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں ڈاکٹری کی تعلیم چھوڑتے ہوئے بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی میں ادب کا پروفیسر بننے کا فیصلہ کیا۔ وہ فل برائٹ اسکالر تھا۔ اسے توہین مذہب کے الزام میں پھنسا دیا گیا۔ ہم اپنے ذہین افراد کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں انصاف دینے میں ناکام رہی۔ میرا سر شرم سے جھک گیا ہے۔