پاکستان نے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے پاکستان پر ’’درپردہ جنگ‘‘ جاری رکھنے کے الزام کی خبروں کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کیا ہے۔
بدھ کو وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کے دفتر سے جاری تحریری بیان میں کہا گیا کہ خاص طور پر جب پاکستانی قیادت بھارت کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات کی خواہاں ہے اعلیٰ ترین سیاسی سطح پر یہ بیان بدقسمتی ہے۔
بھارتی وزیراعظم مودی نے منگل کو اپنے زیر انتظام کشمیر میں فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان بھارت میں عسکریت پسند بھیج کر ’پراکسی وار‘ یا درپردہ جنگ کر رہا ہے۔
ترجمان تسنیم اسلم نے بیان میں کہا کہ پاکستان دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہوا اور اس کے پانچ ہزار سکیورٹی اہلکاروں سمیت 55 ہزار شہری دہشت گردی کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ ان کے بقول پوری دنیا پاکستان کی ان قربانیوں کا اعتراف کرتی آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کی ہر قسم اور ہر صورت میں مذمت کرتا آیا ہے۔
دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق خطے میں وسیع تر امن اور مفاد کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ملک الزام تراشیوں کی بجائے تمام تصفیہ طلب معاملات بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر توجہ دیں اور تعاون پر مبنی دوستانہ تعلقات کے لیے مل کر کام کریں۔
واشنگٹن میں پاکستان کی سابق سفیر شیری رحمٰن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں نریندر مودی کے الزام کو خطے میں امن کی کوششوں کے لیے مضر قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بیانات دونوں ملکوں کے تعلقات میں سردمہری کا باعث نا بھی بنیں تو اس کا اثر دو طرفہ روابط پر ضرور پڑتا ہے۔
"ظاہر ہے اس بیان کا اچھا اثر تو نہیں پڑے گا، کشمیر میں فائربندی کو بہتر کرنے پر بات ہو سکتی تھی اور بھی بہت سے مسائل ہیں جن (بھارتی وزیراعظم) بات کر سکتے تھے۔۔۔۔میرا خیال ہے اس وقت (تعلقات کے) درجہ حرارت کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔"
بھارت اپنے ہاں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں اکثر پاکستان میں موجود کالعدم تنظیموں پر اس کی ذمہ داری عائد کرتا رہا ہے۔
حالیہ مہینوں میں دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان ایک دوسرے پر کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فائربندی کی خلاف ورزی کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
پاکستان نے رواں ہفتے ہی لائن آف کنٹرول اور سیالکوٹ سیکٹر میں ورکنگ بارڈر پر بھارت کی طرف سے بلااشتعال فائرنگ کا الزام عائد کیا تھا اور اسلام آباد میں نائب بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کر کے ان سے احتجاج بھی کیا گیا۔
یہ سب کچھ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب رواں ماہ کے اواخر میں دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان اسلام آباد میں ملاقات ہونے جا رہی ہے جس میں رواں سال مئی میں نئی دہلی میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی اپنے بھارت ہم منصب نریندرمودی ہونے والی بات چیت کے تناظر میں آئندہ کے لائحہ عمل کی حکمت عملی پر تبالہ خیال کیا جائے گا۔