پاکستان نے پی ٹی ایم سے متعلق افغان صدر کا بیان مسترد کر دیا

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور افغان صدر اشرف غنی۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان صدر اشرف غنی کی پختون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں کے احتجاج کی حمایت میں کی گئی ٹوئٹ کو ‘‘غیر ذمہ دارانہ اور کھلی مداخلت’’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔

اٖفغان صدر اشرف غنی نے بدھ کو ایک ٹوئٹ میں خیبر پختو نخواہ اور بلوچستان میں سول سوسائٹی کے، ان کے بقول، پرامن کارکنوں کے خلاف تشدد کے مبینہ استعمال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

غنی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ‘‘یہ ہر حکومت کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف سول سوسائٹی کی سرگرمیوں کی حمایت کرے جو ہمارے خطے کی مجموعی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔’’

صدر غنی نےخبردار کیا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس صورت میں ایک طویل مدت تک منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے افغان صدر کے ٹوئٹ کو غیر ذمہ دارانہ کہتے ہوئے اسے کھلی مداخلت قرارد دیا۔ اُن کے بقول، ‘‘افغان قیادت کو افغان عوام کو درپیش سنگین مسائل کی جانب توجہ دینی چاہیے۔’’

افغان صدر اور پاکستان کے وزیر خارجہ کے درمیان ٹوئٹر پر سخت بیانات کا تبادلہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب افغان تنازع کے حل کی کوششوں میں پاکستان اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں اس صورت حال میں اسلام آباد اور کابل کے درمیان ایسے بیانات کا تبادلہ افغان امن کوششوں کے لیے کسی طور پر سود مند نہیں ہے اور ان سے گریز ضروری ہے۔

یاد رہے کہ بدھ کو اسلام آباد میں پی ٹی ایم کے کارکن ارمان لونی کی ہلاکت کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرے کی کوششں کے دوران پولیس نے پختون تحفظ موومنٹ کی سرکردہ کارکن گلالئی اسماعیل سمیت 18 کارکنوں کو حراست میں لے لیا تھا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ان افراد کو نقص امن کے خدشے کے تحت حراست میں لیا گیا۔

تاہم، اب گلالئی اسماعیل کو رہا کر دیا گیا ہے۔ اور، انہوں نے اپنی رہائی کےبعد ایک ٹوئٹ میں وزیر اعظم عمران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسلام آباد سے گرفتار کیے گئے اپنے دیگر 17 ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

قبل ازیں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ٹوئٹ میں کہا گیا تھا کہ تنظیم گلالئی کے متعلق پریشان ہے۔ تنظیم کا مزید کہنا تھا ان کے خلاف الزامات نہایت افسوس ناک ہیں، کیونکہ انہوں ںےمحض اپنے احتجاج کے حق کو استعمال کیا ہے۔

پاکستانی حکومت اور سیکورٹی ادارے پی ٹی ایم کی سرگرمیوں کو ریاست مخالفت خیال کرتے ہیں اور اسی وجہ سے حالیہ مہینوں میں اس تنظیم کے کارکنوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔