پاکستان ٹی بی سے متاثرہ پانچواں بڑا ملک، سالانہ چھ لاکھ کیسز کا اندراج

فائل فوٹو

  • صحت کے حکام کے مطابق پاکستان میں سالانہ چھ لاکھ افراد تپِ دق سے متاثر ہوتے ہیں۔
  • اس مرض سے 2023 میں پاکستان میں 47 ہزار اموات ہوئی تھیں۔
  • پاکستان میں حکام ان متاثرہ افراد کی کھوج لگا رہے ہیں جو ٹی بی کنٹرول پروگرام میں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔

پاکستان میں صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں ہر برس لگ بھگ چھ لاکھ افراد تپِ دق (ٹی بی) سے متاثر ہوتے ہیں۔ سال 2023 میں اس مرض سے 47 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

پاکستان میں نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام سے وابستہ ایک افسر نےنام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ سال 2023 نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام میں رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد لگ بھگ چار لاکھ 75 ہزار رہی۔

ٹی بی کنٹرول پروگرام کے اعلیٰ افسر کا مزید کہنا تھا کہ وہ ٹی بی کے ان مریضوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ابھی تک پاکستان میں نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے دنوں میں ٹی بی کے مریضوں کی رجسٹریشن میں کمی ہوئی تھی۔ لیکن گزشتہ تین برس کے دوران ٹی بی کے مسنگ کیسز کی تلاش کے نتیجے میں رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ٹی بی سے متاثرہ ممالک میں پاکستان پانچواں بڑا ملک ہے جب کہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو اگرچہ تپِ دق کے مرض میں مبتلا ہیں لیکن وہ اپنے مرض سے آگاہ نہیں ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 2020 میں لگ بھگ دو لاکھ 73 ہزار ٹی بی کے رجسٹرڈ مریض تھے جب کہ 2023 میں یہ تعداد بڑھ کر چار لاکھ 75 ہزار ہو گئی ہے اور تین برس کے دوران ٹی بی کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد میں 42 فی صد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

دنیا سے ٹی بی کا خاتمہ کب تک متوقع ہے؟

ٹی بی کی ابتدائی علامات

ٹی بی اور سینے کے امراض کے ماہر ڈاکٹر قیصر عباسی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹی بی کو ڈراب لیٹ انفیکشن بھی کہتے ہیں اور مریض کے کھانسے سے اس کے جرثومے ہوا میں معلق ہو کر دوسرے شخص تک پھیل سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ہر مریض جس کو کھانسی اور بخار ہو اور وہ معمول کے علاج سے صحت یاب نہ ہو تو اسے ٹی بی کے معالج سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ ایکسرے اور بلغم کے ٹیسٹ کے ذریعے اس کا تعین کیا جائے کہ وہ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہے یا نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک متعدی مرض ہے جو ایک متاثر شخص سے دوسرے کو پھیل سکتا ہے او ر ان لوگوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جن کی قوت مدافعت کم ہوتی ہے۔

بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی بی کے مریض کی تشخیص جلد ہو تو اس کا جلد علاج ہونے سے اس مرض کا پھیلاؤ بھی روکا جا سکتا ہے۔ ٹی بی کی تشخیص اگر جلد نہیں ہو گی تو وہ دوسرے لوگوں تک پھیل سکتا ہے۔

SEE ALSO: امریکہ: ٹی بی کا علاج نہ کرانے والی خاتون زیرِ حراست

ان کا مزید کہنا تھا کہ کہ ٹی بی کے مریض کو ماسک پہننا چاہیے۔ ان کا کمرہ ہوا دار ہونا چاہیے جب کہ یہ مرض قابلِ علاج ہے اور باقاعدہ علاج سے مریض چھ ماہ میں صحت یاب ہو سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق جس گھر میں تپِ دق کا کوئی مریض ہو تو اسے گھر کے دیگر افراد سے الگ کمرے میں رکھنا چاہیے اور اس کا جلد علاج شروع کرانا ضروری ہے تاکہ یہ مرض دیگر افراد تک نہ پھیلے ۔

صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ٹی بی ایک قابلِ علاج مرض ہے پاکستان میں سرکاری اسپتالوں ٹی بی کے علاج کے لیے قائم ایک ہزار 700 مراکز موجود ہیں جہاں اس مرض کی مفت تشیص اور علاج ہوتا ہے۔

صحت کے ان مراکز میں عالمی ادارۂ صحت اور گلوبل فنڈ کے تعاون سے مفت ادویات فراہم کی جاتی ہیں۔ سرکاری شعبے کے ساتھ نجی شعبے میں بھی ٹی بی کی تشخیص اور علاج کیا جا رہا ہے۔