بلوچستان: فائرنگ سے اعلٰی صوبائی عہدیدار سمیت تین ہلاک

(فائل فوٹو)

ڈائریکٹر تعلقات عامہ خادم حسین نوری اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑنے کے بعد دفتر جا رہے تھے کہ پہلے سے گھات لگائے ہو ئے نا معلوم مسلح افراد نے خود کار ہتھیاروں سے ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر دی جس سے وہ موقع پر ہلاک ہو گئے۔
پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر اور پولیس کے ایک افسر سمیت تین افراد کو ہلاک ایک کو شدید زخمی کر دیا۔

یہ واقعہ پیر کی صبح صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے ایک مرکزی علاقے میں پیش آیا۔


پولیس کے ڈی آئی جی آپریشن حامد شکیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ڈائریکٹر تعلقات عامہ خادم حسین نوری اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑنے کے بعد دفتر جا رہے تھے کہ پہلے سے گھات لگائے ہو ئے نا معلوم مسلح افراد نے خود کار ہتھیاروں سے ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر دی جس سے خادم حسین نوری موقع پر ہلاک ہو گئے۔

حملہ آوروں نے اُن کے مسلح پولیس محافظ کو بھی نشانہ بنا کر شدید زخمی کر دیا۔


حامد شکیل کے بقول حملہ آور فائرنگ کے بعد جب اپنی موٹر سائیکل پر فرار ہو نے کی کو شش کر رہے تھے تو پولیس کے ایک اسٹنٹ سب انسپکٹر رجب علی اور ان کے ساتھی پولیس اہلکار سنگین خان نے ملزمان کو پکڑنے کے لیے اُن کا پیچھا کیا جس پر حملہ آوروں نے ان پر بھی فائرنگ شروع کر دی جو ان دونوں پولیس اہلکاروں کی موت کا سبب بنی۔

تاہم حملہ آور اپنی مو ٹر سائیکل چھوڑ کر پیدل فرار ہو گئے۔
خادم حسین نوری کے قتل کے واقعے کے بعد شیعہ برادری کے لوگوں نے کوئٹہ کے علم دار روڈ پر بھرپور احتجاج کیا۔

خادم حسین نوری کا تعلق شیعہ برادری سے تھا اور کوئٹہ میں بدامنی کے واقعات کے پیش نظر وہ اپنا تبادلہ کرانے کی بھی کوشش کر رہے تھے۔ صوبائی دارالحکومت میں اس سے پہلے سیشن جج ذوالفقار نقوی، ڈپٹی ڈائریکٹر جیالوجیکل سر وے آف پاکستان اور شیعہ برادری کے دیگر لوگوں کو بھی نشانہ بنا کر قتل کیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ حکومت بلوچستان کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق رواں سال کے دوران یکم جنوری سے سترہ دسمبر تک فرقہ ورانہ دہشت کی وارداتوں میں 144 افراد ہلاک اور 195 زخمی ہو چکے ہیں۔

صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے افسران کی حفاظت کے لیے مسلح محافظین فراہم کئے گئے ہیں اور شہر میں سکیورٹی کے حوالے سے اقدامات سخت کر دیے گئے ہیں۔