پاکستان کے جنوب مغربی کوئٹہ میں سول اسپتال میں شعبہ حادثات کے دروازے کے قریب ایک طاقتور بم دھماکے میں کم از کم 69 افراد ہلاک ہو گئے۔
حکام کے مطابق زخمی ہونے والے 160 سے زائد افراد میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہے جس سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
پیر کی صبح جب یہ دھماکا ہوا تو اس وقت وکلا اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی بڑی تعداد اسپتال کے احاطے میں موجود تھی۔ یہ تمام افراد بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کی فائرنگ میں ہلاکت کے بعد یہاں پہنچے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بلال کاسی کو کوئٹہ کے منوں جان روڈ پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ بم دھماکے میں مارے جانے والوں میں اکثریت وکلا کی ہے جب کہ ان میں پولیس اہلکار اور دو صحافی بھی شامل ہیں۔
اسپتال میں عموماً صبح کے اوقات میں بڑی تعداد میں مریض اور اُن کے ساتھ آنے والے موجود ہوتے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق دھماکا اس قدر زور دار تھا کہ بیشتر افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے۔
بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے جماعت الاحرار نے بلوچستان ہائی کورٹ کے صدر انور کانسی کو ہدف بنا کر قتل کرنے اور اُس کے بعد کوئٹہ کے سول اسپتال میں جمع ہونے والے وکلا اور دیگر افراد پر بم حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
جماعت الاحرار نے دعویٰ کیا کہ سول اسپتال میں بم دھماکا خودکش بمبار کی کارروائی تھی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ہی امریکہ کی طرف سے 'جماعت الاحرار' کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
یہ دہشت گرد گروپ پاکستان میں حالیہ برسوں میں ہونے والے مہلک بم حملوں اور ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات کی ذمہ داری قبول کرتا رہا ہے۔
صوبائی حکومت کا موقف
بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وزیراعلیٰ نے بم دھماکے کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے اور اُن کے بقول آئندہ 24 گھنٹوں میں ایک رپورٹ پیش کی جائے گی۔
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ اگر سکیورٹی کے حوالے غفلت ثابت ہوئی تو ذمہ دارانہ کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
سوگ کا اعلان
اُدھر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر علی ظفر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تمام وکلا برداری یکجا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس بم دھماکے میں ہونے والے جانی نقصان پر وکلا تنظیموں نے سات روز سوگ کا اعلان کیا ہے۔
’’انصاف کے جو ادارے ہیں ان کو کمزور کرنے کے لیے یہ حملہ کیا گیا ہے، لیکن ہم پرعزم ہیں، پورے پاکستان کے وکلا ایک ساتھ ہیں ایک جگہ کھڑے ہیں کہ اس سے ہم کمزور نہیں ہوں گے ہم اور طاقت ور ہوں گے۔ ہم پوری طرح مقابلہ کریں گے اور اپنے فرائض جو ہیں ہمارے قومی فرائض بھی اور جو پروفیشنل فرائض ہیں وہ پوری طرح سرانجام دیتے رہیں گے۔ ہم نے ایک ہفتہ کا سوگ منائیں گے۔‘‘
بلوچستان کو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری شورش پسندی اور دہشت گردی کی لہر کا سامنا رہا اور اس دوران پولیس و سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں، عام شہریوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور مختلف اقلیتی برداریوں سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں پر سینکڑوں حملے کیے جا چکے ہیں۔
لیکن حالیہ برسوں میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے باعث ماضی کی نسبت یہاں امن و امان کی صورتحال میں قدرے بہتری آئی ہے۔
تاہم رواں سال کے اوائل سے ایک بار پھر یہاں تشدد پر مبنی متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں خاص طور پر پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر بم حملے کیے گئے جن میں درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔
وزیراعظم نوازشریف نے پیر کو ہونے والی فائرنگ میں بلال انور کاسی کی موت اور بم دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے کے امن کو خراب کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی۔