عدالتی فیصلے پر قائدین کی طرح عوام کی رائے بھی منقسم

فیصلے بعد سب ہی اسے اپنے اپنے موقف کی جیت قرار دیتے ہوئے فتح کا نشان بنا کر مسرت کا اظہار کرتے نظر آئے

وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے نام غیر ملکی اثاثے رکھنے کے پاناما پیپرز کے ذریعے انکشافات سے ٹھیک ایک سال قبل شروع ہونے والا معاملہ جمعرات کو وزیراعظم اور ان کے بچوں کے خلاف دائر درخواستوں پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے بھی بظاہر ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور دونوں جماعتیں اب بھی اپنے اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم ہیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عدالت کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ان درخواستوں کی محدود دائرہ کار کے اندر وزیراعظم اور ان کے خاندان کی کاروباری سرگرمیوں اور ذاتی زندگیوں کاجائزہ لے اس لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنا کر اس کی تحقیقات کی جائیں۔

جس طرح حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور اس کی سب سے بڑی ناقد پاکستان تحریک انصاف عدالتی فیصلے کو اپنے اپنے موقف کی فتح قرار دے رہی ہیں اسی طرح عام شہریوں کی رائے بھی عدالتی فیصلے پر منقسم دکھائی دیتی ہے۔

اسلام آباد میں ایک نجی ادارے سے وابستہ سید عمران ریاض نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انھیں ایسے ہی فیصلے کی توقع تھی اور ان کے نزدیک وزیراعظم کو کام کرتے رہنا چاہیے۔

"ہمیں توقع تھی کہ ایسا فیصلہ نہیں آئے گا جس سے ان (حکومت) کو کچھ ہوگا کیونکہ عوام کو پتا ہے کیا ہو رہا ہے کیا نہیں ہو رہا۔ ہم تو کہتے ہیں کہ ملک میں ترقی ہونی چاہیے یہ نہیں کہ حکومت ہٹائی جائے۔"

لیکن ایک اور شہری ریاض علی طوری کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلہ ایسا نہیں جس کی انھیں توقع تھی۔

"بڑا شور شرابا تھا عوام بھی انتظار کر رہے تھے۔۔۔سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے سب کو احترام کرنا ہوگا لیکن جہاں تک میرا خیال ہے (فیصلہ) عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اترا۔ جے آئی ٹی بنے گی تو وزیراعظم تو چیف ایگزیکٹو ہیں تو کیا جے آئی ٹی خودمختار ہوگی۔ اگر سپریم کورٹ کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکی تو جے آئی ٹی کیسے پہنچ پائے گی۔"

فیصلے کے وقت حکومتی عہدیداروں کے علاوہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے سربراہان سمیت ان سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کی بڑی تعداد سپریم کورٹ میں موجود تھی جب کہ عدالت کے باہر میڈیا کے نمائندوں کا ایک جم غفیر تھا۔

فیصلے بعد سب ہی اسے اپنے اپنے موقف کی جیت قرار دیتے ہوئے فتح کا نشان بنا کر مسرت کا اظہار کرتے نظر آئے جب کہ مسلم لیگ ن کے حامیوں کی طرف سے عدالت کے باہر مٹھائی بھی تقسیم کی گئی۔

گو کہ حکمران جماعت اور تحریک انصاف نے یہ کہہ رکھا تھا کہ انھوں نے اپنے کارکنوں کو سپریم کورٹ نہ آنے کی ہدایت کر رکھی ہے لیکن اس کے باوجود دونوں ہی جماعتوں کے کچھ کارکنان یہاں موجود تھے جو ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی بھی کرتے رہے۔

کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے پولیس کی اضافی نفری کو سپریم کورٹ کے باہر تعینات کیا گیا تھا جب کہ شاہراہ دستور جہاں عدالت عظمیٰ سمیت دیگر اہم سرکاری عمارتیں واقع ہیں، کی طرف جانے والے راستوں پر بھی قانون نافذ کرنے والوں کی ایک قابل ذکر تعداد موجود تھی۔