آرڈیننس کے تحت کسی سرکاری یا فوجی اہلکار، غیر ملکی شہری یا شخصیت کو قتل یا اغواء کرنے اور سرکاری، فوجی اور جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کے عمل کو ملک کے خلاف جنگ تسلیم کیا جائے گا۔
اسلام آباد —
پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ و منشیات نے منگل کو حزب اختلاف کی مخالفت کے بعد تحفظ پاکستان نامی صدارتی حکم نامہ کثرت رائے سے منظور کر دیا۔
ایک روز قبل ہی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف نے وزارت داخلہ کو اس آرڈیننس کو جلد پارلیمان سے منظور کروا کر نافذ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
حکومت میں شامل اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی اور بدامنی کی ’’غیر معمولی صورتحال‘‘ سے موثر انداز مین نمٹنے کے لیے سخت قوانین متعارف کروانا وقت کی ضروری ہے۔
آرڈیننس کے تحت کسی سرکاری یا فوجی اہلکار، غیر ملکی شہری یا شخصیت کو قتل یا اغواء کرنے اور سرکاری، فوجی اور جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کے عمل کو ملک کے خلاف جنگ تسلیم کیا جائے گا اور ایسا کرنے والے کو دس سال تک قید کی سزاء دی جا سکے گی۔
ایسی کارروائیوں کے لیے خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا جن کے فیصلوں کے خلاف اپیل صرف سپریم کورٹ ہی میں کی جا سکے گی۔ صدارتی حکم نامے میں قانون نافذ کرنے والوں کو ضرورت پڑنے اور مستند وجوہات پر گولی چلانے کی اجازت ہوگی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پارلیمان میں حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کمیٹی کے رکن عارف علوی کا کہنا تھا کہ اس آرڈیننس کی بعض بنیادی شقوں میں ترمیم کے بغیر اس کے موثر نفاذ میں شدید مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
’’مستند کی وضاحت کریں کہ کس حالت میں انہیں فائر کرنے کی اجازت ہوگی۔ پھر انسانوں کے اندر فرق نا کریں کہ فوجی یا جج یا سرکاری اہلکار کے خلاف اگر کارروائی ہوئی تو اس قانون کا اطلاق ہوگا۔ اداروں کو گھروں پر چھاپہ مارنے کی اجازت ہونی چاہئے مگر اس سے پہلے حکومت واضح کرے کہ یہاں سے دہشت گردی کے امکانات ہیں یہاں یہ کیے جائیں گے۔‘‘
تحریک انصاف کے قانون ساز نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ ان کے بقول حقوق انسانی کے منافی شقوں کی وجہ سے اس آرڈیننس کو سپریم کورٹ کالعدم قرار دے دے گی۔
کراچی کی ایک بااثر سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے قانون ساز اور کمیٹی کے رکن نبیل گبول نے بھی اس صدارتی حکم نامے کی چند شقوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا۔
’’مارشل لاء دور میں لوگوں کو گرفتار کیا گیا کہ یہاں بس جل رہی تھی تو فلاں وہاں موجود تھا۔ اس آرڈیننس کی روح سے کوئی اختلاف نہیں بس یہ ہے کہ اسے سیاسی انتقام کے لیے نا استعمال کیا جائے اور سیاسی یا عام آدمی کو دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں سے علیحدہ کیا جائے۔‘‘
تاہم قائمہ کمیٹی میں حزب اختلاف کے اراکین سے کہا گیا کہ ان کی تجاویز کو پارلیمان میں صدارتی حکم نامے پر بحث کے دوران زیر غور لایا جائے گا۔
وزیر مملکت برائے امور داخلہ بلیغ الرحمان کا کہنا تھا کہ اس آرڈیننس کا باقاعدہ قانون کی صورت میں اطلاق سے دہشت گردی اور بدامنی پر قابو پایا جا سکتا تھا۔
’’ہمارے موجودہ عدالتی نظام میں لوگوں کی عمریں گزر جاتی ہیں نتائج نہیں آتے۔ عام جائیداد یا ذاتی تنازعات میں آپ برداشت کرسکتے ہیں چاہے دو سو سال لگ جائیں۔ مگر جہاں دہشت گردی کے معاملات ہوں اور ملک کے 18 کروڑ لوگوں کے خلاف جنگ کا سماں ہوتو اس صورت میں ہمیں چیزوں کو بہت تیزی سے آگے لے کر چلنا ہے۔‘‘
مزید برآں صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں اور تیل کے ٹینکروں پر حملہ کرنے والوں اور انٹرنیٹ سے متعلق جرائم میں ملوث افراد کے خلاف بھی تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
یہ آرڈیننس قومی اسمبلی کے آئندہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں پیش کیے جانے کی توقع ہے جہاں سے اسے بظاہر باآسانی منظور کروا لیا جائے گا کہ ایوان زیریں میں حکمران مسلم لیگ ن کی اکثریت ہے۔
ایک روز قبل ہی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف نے وزارت داخلہ کو اس آرڈیننس کو جلد پارلیمان سے منظور کروا کر نافذ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
حکومت میں شامل اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی اور بدامنی کی ’’غیر معمولی صورتحال‘‘ سے موثر انداز مین نمٹنے کے لیے سخت قوانین متعارف کروانا وقت کی ضروری ہے۔
آرڈیننس کے تحت کسی سرکاری یا فوجی اہلکار، غیر ملکی شہری یا شخصیت کو قتل یا اغواء کرنے اور سرکاری، فوجی اور جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کے عمل کو ملک کے خلاف جنگ تسلیم کیا جائے گا اور ایسا کرنے والے کو دس سال تک قید کی سزاء دی جا سکے گی۔
ایسی کارروائیوں کے لیے خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا جن کے فیصلوں کے خلاف اپیل صرف سپریم کورٹ ہی میں کی جا سکے گی۔ صدارتی حکم نامے میں قانون نافذ کرنے والوں کو ضرورت پڑنے اور مستند وجوہات پر گولی چلانے کی اجازت ہوگی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پارلیمان میں حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کمیٹی کے رکن عارف علوی کا کہنا تھا کہ اس آرڈیننس کی بعض بنیادی شقوں میں ترمیم کے بغیر اس کے موثر نفاذ میں شدید مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
’’مستند کی وضاحت کریں کہ کس حالت میں انہیں فائر کرنے کی اجازت ہوگی۔ پھر انسانوں کے اندر فرق نا کریں کہ فوجی یا جج یا سرکاری اہلکار کے خلاف اگر کارروائی ہوئی تو اس قانون کا اطلاق ہوگا۔ اداروں کو گھروں پر چھاپہ مارنے کی اجازت ہونی چاہئے مگر اس سے پہلے حکومت واضح کرے کہ یہاں سے دہشت گردی کے امکانات ہیں یہاں یہ کیے جائیں گے۔‘‘
تحریک انصاف کے قانون ساز نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ ان کے بقول حقوق انسانی کے منافی شقوں کی وجہ سے اس آرڈیننس کو سپریم کورٹ کالعدم قرار دے دے گی۔
کراچی کی ایک بااثر سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے قانون ساز اور کمیٹی کے رکن نبیل گبول نے بھی اس صدارتی حکم نامے کی چند شقوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا۔
’’مارشل لاء دور میں لوگوں کو گرفتار کیا گیا کہ یہاں بس جل رہی تھی تو فلاں وہاں موجود تھا۔ اس آرڈیننس کی روح سے کوئی اختلاف نہیں بس یہ ہے کہ اسے سیاسی انتقام کے لیے نا استعمال کیا جائے اور سیاسی یا عام آدمی کو دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں سے علیحدہ کیا جائے۔‘‘
تاہم قائمہ کمیٹی میں حزب اختلاف کے اراکین سے کہا گیا کہ ان کی تجاویز کو پارلیمان میں صدارتی حکم نامے پر بحث کے دوران زیر غور لایا جائے گا۔
وزیر مملکت برائے امور داخلہ بلیغ الرحمان کا کہنا تھا کہ اس آرڈیننس کا باقاعدہ قانون کی صورت میں اطلاق سے دہشت گردی اور بدامنی پر قابو پایا جا سکتا تھا۔
’’ہمارے موجودہ عدالتی نظام میں لوگوں کی عمریں گزر جاتی ہیں نتائج نہیں آتے۔ عام جائیداد یا ذاتی تنازعات میں آپ برداشت کرسکتے ہیں چاہے دو سو سال لگ جائیں۔ مگر جہاں دہشت گردی کے معاملات ہوں اور ملک کے 18 کروڑ لوگوں کے خلاف جنگ کا سماں ہوتو اس صورت میں ہمیں چیزوں کو بہت تیزی سے آگے لے کر چلنا ہے۔‘‘
مزید برآں صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں اور تیل کے ٹینکروں پر حملہ کرنے والوں اور انٹرنیٹ سے متعلق جرائم میں ملوث افراد کے خلاف بھی تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
یہ آرڈیننس قومی اسمبلی کے آئندہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں پیش کیے جانے کی توقع ہے جہاں سے اسے بظاہر باآسانی منظور کروا لیا جائے گا کہ ایوان زیریں میں حکمران مسلم لیگ ن کی اکثریت ہے۔