خاوند بیوی کو تنبیہ کے لیے ہلکی سزا دے سکتا ہے: اسلامی نظریاتی کونسل

مولانا محمد شیرانی (فائل فوٹو)

مسودہ قانون کی سامنے آنے والی شقوں کے مطابق شوہر نافرمانی کرنے پر بیوی کو تنبیہ کے لیے ہلکی سزا دے سکتا ہے لیکن تادیب میں تجاوز پر عورت اپنے شوہر کے خلاف عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔

پاکستانی قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق وضع کرنے کے لیے قائم مشاورتی ادارے 'اسلامی نظریاتی کونسل' نے خواتین کے تحفظ کا ایک مسودہ قانون تیار کیا ہے جس میں عورتوں کو مذہب کے مطابق دیے گئے بہت سے حقوق کو اجاگر کیا گیا وہیں عائلی اور معاشرتی زندگی سے متعلق بھی شقیں شامل کی گئی ہیں۔

رواں سال کے اوائل میں پاکستان کے گنجان ترین صوبے پنجاب کی اسمبلی نے خواتین کے حقوق کا ایک قانون منظور کیا تھا جسے اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلام کے منافی قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔

جمعرات کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کونسل کے سربراہ مولانا محمد شیرانی نے صحافیوں کو بتایا کہ کونسل کی طرف سے تیار کیے جانے والے مسودہ قانون کا مقصد اصلاح ہے۔

"پنجاب حکومت کو یہ استحقاق حاصل نہیں کہ جس آئین کا انھوں نے حلف لیا اس کے خلاف کوئی قانون وضع کرے۔ اگر انھیں شریعت کا پتا نہیں تھا تو پھر اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھیجے بغیر اس کو حق حاصل نہیں تھا کہ وہ قانون پاس کرے۔"

پنجاب حکومت کے عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ قانون کی تیاری میں علما سے بھی مشاورت کی گئی تھی۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے تیار کردہ مسودہ قانون کی سامنے آنے والی شقوں کے مطابق شوہر نافرمانی کرنے پر بیوی کو تنبیہ کے لیے ہلکی سزا دے سکتا ہے لیکن تادیب میں تجاوز پر عورت اپنے شوہر کے خلاف عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔

مزید برآں خاتون نرس مرد مریضوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی جب کہ خواتین کو غیر محرم افراد کے ساتھ تفریحی دورے اور آزادانہ میل جول سے بھی ممانعت ہوگی۔

مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ "عورت معاشی مشاغل میں سے کسی بھی مشغلے کو جو مذہبی حدود اور ہدایات کے دائرے کے اندر ہو وہ اختیار کر سکتی ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب کی ہو اگر وہ مذہبی دائرے سے باہر ہے تو اسے یہ حق حاصل نہیں۔"

انسانی اور خواتین کے حقوق سے متعلق مختلف غیر سرکاری تنظیمیں اور آزاد خیال حلقے اسلامی نظریاتی کونسل کو قدامت پسند قرار دے کر تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں جسے کونسل کے ارکان مسترد کرتے ہیں۔

مجوزہ قانون میں کونسل نے بعض ایسے معاملات کو بھی شامل کیا ہے جن کے بارے میں آئے روز ذرائع ابلاغ میں خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔

زیر غور مسودہ قانون میں کہا گیا کہ عاقلہ و بالغ لڑکی کو والدین کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے کی اجازت ہے جب کہ جبراً شادی قابل تعزیر جرم ہوگا۔

مزید برآں غیرت کے نام پر عورت کے قتل اور کاروکاری کو قتل تصور کیا جائے گا جب کہ قرآن سے عورت کی شادی قابل تعزیر جرم ہے جس کی سزا دس سال قید ہوسکتی ہے۔

کسی بھی عورت کا مذہب جبراً تبدیل کروانے پر تین سال قید کی سزا ہو گی۔

اس مسودے کو قانون سازوں کو بھیجا جائے گا لیکن یہ امر قابل ذکر ہے کہ پارلیمان اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو تسلیم کرنے کی پابند نہیں ہے۔