لڑکیوں کی تعلیم کے لیے 70 لاکھ ڈالر کا پروگرام

فائل فوٹو

پاکستان میں تعلیم کا شعبہ مختلف مسائل کا شکار رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف معیار تعلیم متاثر ہو رہا ہے بلکہ اسکولوں میں بچوں کے داخلے اور پھر تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے سمیت اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے میں دشواریوں کا سامنا رہا ہے۔

پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت تین سالوں کے دوران ملک بھر سے 12 مختلف اضلاع میں 50 ہزار لڑکیوں کو اسکول میں داخل کیا جائے گا۔

لڑکیوں کے حق حصول تعلیم کے پروگرام کا نفاذ مختلف غیر سرکاری اور سماجی تنظیموں کے ذریعے کیا جائے گا اور اس کے لیے 70 لاکھ ڈالر کی رقم ملالہ فنڈز کے ٹرسٹ سے فراہم کی جائے گی۔

یہ ٹرسٹ 2014ء میں حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت "یونیسکو" نے مل کر شروع کیا تھا اور اس کا مقصد دور افتادہ علاقوں میں لڑکیوں کو تعلیم کی بہتر اور معیاری سہولت فراہم کرنا ہے۔

پاکستان میں تعلیم کا شعبہ مختلف مسائل کا شکار رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف معیار تعلیم متاثر ہو رہا ہے بلکہ اسکولوں میں بچوں کے داخلے اور پھر تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے سمیت اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے میں دشواریوں کا سامنا رہا ہے۔

حکومت نے رواں سال ملک بھر میں داخلہ پروگرام شروع کیا تھا جس سے اس ضمن میں کسی حد تک بہتری دیکھی گئی لیکن عالمی سطح پر تعلیم کے لیے وضع کردہ اہداف حاصل کرنے کے لیے ایٹمی صلاحیت کے حامل اس ملک کو ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

تعلیم کے لیے کام کرنے والی ایک موقر غیر سرکاری تنظیم "الف اعلان" کے ایک عہدیدار ڈاکٹر جواد اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ ملک کے 146 اضلاع میں کیے گئے تعلیمی جائزے کے مطابق بہت سے علاقوں میں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کے اسکول میں داخلے کی شرح انتہائی کم ہے اور اس تناظر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے شروع کیا جانے والا پروگرام خوش آئند ہے۔

"جیسے مثال کے طور پر ملالہ کا تعلق سوات سے ہے تو اس سے قریبی علاقے شانگلہ میں آپ کو سن کر حیرت ہو گی کہ وہاں لڑکیوں کا ایک بھی کالج نہیں ہے۔۔۔یہ مسئلہ پورے ملک میں ہے اور اس سے سب سے زیادہ متاثر لڑکیاں ہوتی ہیں تو اس طرح کا پروگرام اگر شروع ہوتا ہے تو لڑکیوں کے اسکول میں داخلے کے لیے یہ بہت خوش آئند ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کا تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھنے میں ایک بڑی وجہ مرد اساتذہ کی نسبت خواتین اساتذہ کی کم تعداد بھی ہے۔ ان کے بقول ایک اندازے کے مطابق اگر 60 لڑکوں کے لیے ایک استاد ہے تو دوسری طرف 90 لڑکیوں کے لیے ایک استانی ہے جب کہ معیاری تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ ایک استاد کے زیر نگرانی 40 بچے ہونے چاہیئں۔

ڈاکٹر جواد کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیئے بچوں کو اسکولوں میں داخل کرنے کے علاوہ ایسے سنجیدہ اقدام پر بھی توجہ دے جس سے ان بچوں کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہونے سے محفوظ رہے۔