'پاکستان میں صدارتی نظام نہیں لایا جا رہا'

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں۔ فائل فوٹو

وفاقی حکومت نے سینیٹ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ ملک میں ون یونٹ یا صدارتی نظام نہیں لایا جا رہا اور نہ ہی اٹھارویں آئینی ترمیم کو ختم کیا جا رہا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آئی ایم ایف کے قرض سے جوہری پروگرام یا اقتصادی راہداری کے منصوبے کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

سینیٹ میں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ میں تاخیر کے معاملے پر تحریک کی بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ دینا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے جسے نبھایا جائے گا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ تشویش کی بات ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں صوبوں اور وفاق کے درمیان وسائل کی تقسیم کے لیے این ایف سی ایوارڈ نہیں لایا گیا۔ ان کے مطابق موجودہ حکومت نے نویں این ایف سی ایوارڈ کی تشکیل کے لیے صوبوں سے نامزدگیاں مانگیں، تاہم صوبوں کی جانب سے ممبر نامزد نہ کرنے کے باعث نئے این ایف سی ایواڈ کی تشکیل میں تاخیر ہوئی۔

پاکستان میں وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے لیے ہر پانچ سال کے بعد قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل آرٹیکل 160 (ون) کے تحت آئینی ذمہ داری ہے، تاہم ماضی میں حکومتیں اس کے اعلان میں مشکلات کا شکار رہی ہیں۔

آخری قومی مالیاتی کمیشن کا اعلان 2010 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہوا۔ تاہم 30 جون 2015 کو اس ایوارڈ کے زائد المعیاد ہونے کے باوجود نیا ایوارڈ نہیں لایا جا سکا۔

2015 سے اب تک آٹھویں این ایف سی ایوارڈ کو سالانہ بنیاد پر توسیع دی جاتی رہی ہے اور اس ایوارڈ کی بنیاد پر ہی صوبوں کو محاصل کی تقسیم ہو رہی ہے جس میں پنجاب کو 51.74 فیصد، سندھ کو 24.55 فیصد، خیبر پختونخوا کو 14.62 فیصد اور بلوچستان کو 9.09 فیصد محاصل ملتے ہیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود نے یہ بھی کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ قرض کے حصول کے باعث پاکستان کے جوہری پروگرام اور پاک چین اقتصادی راہداری کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور یہ کہ ان پر قومی اتفاق پایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس خوشی سے نہیں جا رہے بلکہ گزشتہ حکومتوں کی غلط پالسیوں کے باعث معاشی عدم استحکام کی وجہ سے مانیٹری ادارے کے پاس گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب آپ کو بتایا جائے کہ زرمبادلہ کے ذخائر چھ ماہ کے رہ گئے ہیں تو خطرے کی گھنٹیاں بجھتی ہیں۔ جب تجارتی خسارہ اور گردشی قرضے 1300 ارب سے زیادہ ہو تو تشویش ہوتی ہے۔

شاہ محمود قریشی نے آئی ایم ایف کے مصر میں نمائندے رضا باقر کی بطور گورنر اسٹیٹ بینک تقرری کا بھی دفاع کیا اور کہا کہ دوہری شہریت کا اطلاق صرف اراکین پارلیمنٹ پر ہوتا ہے اور یہ کہ رضا باقر زیادہ تنخواہ چھوڑ کر کم تنخواہ پر پاکستان کی خدمت کرنے آ رہے ہیں۔

اس سے قبل اپوزیشن سینیٹرز نے حکومت کی معاشی پالیسوں پر تنقید کی اور صوبوں اور وفاق کے درمیان وسائل کی تقسیم کے لیے ایوارڈ میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ وزیر اعظم کو آئی ایم ایف کے لوگوں نے گھیر لیا ہے اور آئی ایم ایف شروع سے صوبائی خودمختاری اور این ایف سی ایوارڈ کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت پر اس وقت آئی ایم ایف کا مکمل کنٹرول ہے چونکہ حکومت نے مشیر خزانہ بھی آئی ایم ایف کا لگایا ہے اور گورنر سٹیٹ بینک بھی انہیں کا نمائندہ ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ ملک کی معاشی خودمختاری کو آئی ایم کے آگے سرنگوں کرنے سے قومی سلامتی خطرے میں ہے۔ اور اب پاکستان کا دفاعی بجٹ اور جوہری پروگرام کے بجٹ کی معلومات ان ہاتھوں سے گزریں گی جنہوں نے پاکستان کے مفادات کے تحفظ اور معلومات کی رازداری کا حلف نہیں اٹھایا ہے