انتخابات سے پہلے 29 جولائی تک کوئی بھی امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے سکے گا۔ انتخابات کے نتائج کا اعلان 7 اگست کو کیا جائے گا۔
اسلام آباد —
پاکستان کے الیکشن کمیشن نے منگل کو صدراتی انتخابات کا شیڈول جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا انعقاد اگست کے پہلے ہفتے میں ہوگا۔
کمیشن کے ایک ترجمان خورشید خان کے مطابق چیف الیکشن کمیشنر فخرلدین جی ابراہیم نے شیڈول کی منظوری دی جس کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند 24 جولائی تک اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرواسکتے ہیں جبکہ 26 جولائی کو ان کی چانچ پڑتال کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ 6 اگست کو ہونے والے انتخابات سے پہلے 29 جولائی تک کوئی بھی امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے سکے گا۔ انتخابات کے نتائج کا اعلان 7 اگست کو کیا جائے گا۔
صدر آصف علی زرداری پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ 11 مئی کے انتخابات کے بعد ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے اکژیت کھو جانے کے بعد ان کا دوبارہ صدارتی انتخابات لڑنے کا حق نہیں بنتا۔ حال ہی میں ان کے ترجمان نے بھی ذرائع ابلاغ میں بیان دیا کہ صدر زرداری انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔
آصف زرداری کی صدارت کی میعاد ستمبر میں مکمل ہورہی ہے۔
تاہم پی پی پی کے رہنما سینیٹر سعید غنی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں سے مذاکرات کے بعد حکمران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کے خلاف امیدوار کھڑا کیا جائے گا اور ممکن ہے کہ اس کا تعلق پیپلز پارٹی سے نا ہو۔
’’اصل میں زیادہ فرق صوبائی اسمبلیوں میں جا کر پڑے گا کیونکہ ان کے ووٹ برابر ہوتے ہیں۔ پنجاب میں تو پی ایم ایل این کی اکثریت ہے مگر دیگر صوبوں میں نہیں تو وہاں اگر سیاسی جماعتوں میں کسی ایک امیدوار پر اتفاق رائے ہوجاتا ہے تو مقابلہ سخت اور دلچسپ ہوگا۔‘‘
صدر کے انتخاب میں اہل ووٹر اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز ہوتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کو حالیہ انتخابات میں واضح برتری حاصل ہوئی جبکہ پی پی پی قومی اسمبلی میں نسشتوں کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر رہی اور سندھ کے علاوہ کسی دوسرے صوبے میں حکومت نا بنا سکی۔ بلوچستان مین پشتون اور بلوچ قوم پرست کی معاونت سے نواز لیگ کی حکومت ہے۔
خیبرپختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف حکمران جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں بھی تیسری بڑی پارٹی ہے۔ پی ٹی آئی کے سینئر نائب صدر اسد عمر کہتے ہیں کہ اس بارے میں ان کی جماعت کی قیادت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا مگر انہوں نے صدارتی انتخابات کے لیے حزب اختلاف کی جماعتوں میں اتحاد کو خارج از امکان قرار بھی نہیں دیا۔
’’ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسی صورتحال پیدا ہو کہ ہمارا اور ان کا (پی پی پی) اتفاق ہو جائے۔ ہوسکتا ہے کوئی اور امیدوار ہو۔ نا ہو ان کی طرف سے اور ہم کسی تیسرے امیدوار کی حمایت کریں۔ سیاست میں تو جب ساتھ بیٹھتے ہیں تو پھر راہیں نکلتی ہیں۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کو ایوان بالا یعنی سینٹ میں اکثریت حاصل ہے جوکہ آئندہ سال ستمبر تک برقرار رہے گی۔
کمیشن کے ایک ترجمان خورشید خان کے مطابق چیف الیکشن کمیشنر فخرلدین جی ابراہیم نے شیڈول کی منظوری دی جس کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند 24 جولائی تک اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرواسکتے ہیں جبکہ 26 جولائی کو ان کی چانچ پڑتال کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ 6 اگست کو ہونے والے انتخابات سے پہلے 29 جولائی تک کوئی بھی امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے سکے گا۔ انتخابات کے نتائج کا اعلان 7 اگست کو کیا جائے گا۔
صدر آصف علی زرداری پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ 11 مئی کے انتخابات کے بعد ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے اکژیت کھو جانے کے بعد ان کا دوبارہ صدارتی انتخابات لڑنے کا حق نہیں بنتا۔ حال ہی میں ان کے ترجمان نے بھی ذرائع ابلاغ میں بیان دیا کہ صدر زرداری انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔
آصف زرداری کی صدارت کی میعاد ستمبر میں مکمل ہورہی ہے۔
تاہم پی پی پی کے رہنما سینیٹر سعید غنی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں سے مذاکرات کے بعد حکمران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کے خلاف امیدوار کھڑا کیا جائے گا اور ممکن ہے کہ اس کا تعلق پیپلز پارٹی سے نا ہو۔
’’اصل میں زیادہ فرق صوبائی اسمبلیوں میں جا کر پڑے گا کیونکہ ان کے ووٹ برابر ہوتے ہیں۔ پنجاب میں تو پی ایم ایل این کی اکثریت ہے مگر دیگر صوبوں میں نہیں تو وہاں اگر سیاسی جماعتوں میں کسی ایک امیدوار پر اتفاق رائے ہوجاتا ہے تو مقابلہ سخت اور دلچسپ ہوگا۔‘‘
صدر کے انتخاب میں اہل ووٹر اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز ہوتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کو حالیہ انتخابات میں واضح برتری حاصل ہوئی جبکہ پی پی پی قومی اسمبلی میں نسشتوں کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر رہی اور سندھ کے علاوہ کسی دوسرے صوبے میں حکومت نا بنا سکی۔ بلوچستان مین پشتون اور بلوچ قوم پرست کی معاونت سے نواز لیگ کی حکومت ہے۔
خیبرپختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف حکمران جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں بھی تیسری بڑی پارٹی ہے۔ پی ٹی آئی کے سینئر نائب صدر اسد عمر کہتے ہیں کہ اس بارے میں ان کی جماعت کی قیادت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا مگر انہوں نے صدارتی انتخابات کے لیے حزب اختلاف کی جماعتوں میں اتحاد کو خارج از امکان قرار بھی نہیں دیا۔
’’ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسی صورتحال پیدا ہو کہ ہمارا اور ان کا (پی پی پی) اتفاق ہو جائے۔ ہوسکتا ہے کوئی اور امیدوار ہو۔ نا ہو ان کی طرف سے اور ہم کسی تیسرے امیدوار کی حمایت کریں۔ سیاست میں تو جب ساتھ بیٹھتے ہیں تو پھر راہیں نکلتی ہیں۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کو ایوان بالا یعنی سینٹ میں اکثریت حاصل ہے جوکہ آئندہ سال ستمبر تک برقرار رہے گی۔