پاکستان میں آبادی میں تیزی سے اضافے کا مسئلہ پولیو کی طرح ہنگامی نوعیت اختیار کر چکا ہے اور حکومت نے اس معاملے سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر مملکت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز سائرہ افضل تارڑ نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ آبادی کی شرح کم کرنے میں پاکستان باقی مسلمان ممالک سے بہت پیجھے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہر سال ملک کی آبادی میں 35 لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح 1.9 فیصد ہے۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ سے تعلق رکھنے والے مقدر شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر موجودہ رفتار سے ملک کی آبادی میں اضافہ جاری رہا تو اگلے 35 سال میں پاکستان کی آبادی دگنی ہو جائے گی۔
’’اس لحاظ سے ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں۔ نہ ہمارے پاس اتنی تعلیمی سہولتیں ہیں، نہ ہمارے پاس صحت کے وسائل ہیں۔ سڑکوں کو آپ دیکھ لیں کہ کیا یہ موجود آبادی کے لیے کافی ہیں؟ اور اگر اگلے 35 سالوں میں ملک کی آبادی دگنی ہونے کا خطرہ ہے تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں منصوبہ بندی کے لحاظ سے؟‘‘
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت رواں ہفتے ایک قومی کانفرنس منعقد کروا رہی ہے۔ تاہم سائرہ افضل تارڑ کا کہنا تھا کہ آبادی کا مسئلہ صرف ملک کے ناکافی وسائل کا مسئلہ نہیں بلکہ بچوں میں وقفہ نہ ہونے کا اثر پورے خاندان کی صحت خصوصاً ماں اور بچے پر ہوتا ہے اور ہمیں اسے اسی تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔
پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی سہولتوں کے بارے میں معلومات کی کمی یا ایسی سہولتوں تک رسائی نہ ہونے کے باعث لوگوں کی اکثریت بچوں میں وقفے پر دھیان نہیں دیتی، جس سے ماؤں کی صحت شدید متاثر ہوتی ہے اور بہت سی عورتیں زچگی کے دوران موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
حکومت نے حال ہی میں آبادی کے مسئلے پر 32 علما کے ساتھ مشاورتی اجلاس منعقد کیا جس میں علما نے بچوں کے پیدائش میں وقفے اور لڑکیوں کی خوراک اور تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کی حمایت کی۔
سابق سینیٹر اور وزیر اطلاعات جاوید جبار نے اس اجلاس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ قرآن میں ماؤں اور بچوں کے حقوق پر زور دیا گیا ہے اور خاندانی زندگی ایک دوسرے سے محبت اور دیکھ بھال پر مبنی ہے۔ اس لیے خاندان کی کسی بھی فرد کی بہبود کو خطرے میں ڈالنا قرآن کی تعلیمات کے منافی ہے۔
سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر بہبود آبادی کو ملک کی اولین ترجیحات بنانے پر کام کرے گی۔
’’مجھے یقین ہے کہ جو تبدیلی پچھلے 60 سال میں نہیں آئی اگلے 10 سال میں آئے گی۔ میرے خیال میں اس کے لیے پہلے سے جو سہولتیں موجود ہیں ہمیں انہیں بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومتوں کو اس کے لیے وسائل مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ ادویات اتنی دیتے ہیں، ویکسین اتنی دیتے ہیں، تو یہ سہولتیں بھی عوام کو دیں اور اس کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائیں۔‘‘
5 نومبر کو ہونے والی قومی آبادی کانفرنس میں وزیر اعظم اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سمیت ملک بھر سے 500 مندوبین اور بیرون ملک سے ماہرین شرکت کریں گے۔
اس سے قبل پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات احسن اقبال کہہ چکے ہیں کہ پاکستان نے آبادی کے مسئلے پر توجہ نہ دینے کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ترقی پذیر اور ایشائی ممالک میں سب سے آگے تھا مگر اپنی ترقی کی رفتار کو برقرار نہیں رکھ سکا۔
پاکستان میں آخری مرتبہ 1998 میں مردم شماری کی گئی تھی جس کے مطالق ملک کی آبادی 13 کروڑ سے زیادہ تھی۔ اس کے بعد دوبارہ مردم شماری نہیں کی گئی، تاہم محتاط تخمینوں کے مطابق اس وقت پاکستان کی آبادی 18 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔
اگلی مردم شماری آئندہ سال متوقع ہے جس کے اعدادوشمار سامنے آنے کے بعد ملک کی ترجیحات طے کرنے میں سہولت ہو گی۔