پاکستان: حکومت اور عدلیہ کے درمیان کشیدگی کا خدشہ

Các cựu chiến binh và sĩ quan chỉ huy tham dự buổi diễu hành kỷ niệm 60 năm ký hiệp định đình chiến của cuộc chiến tranh Triều Tiên, vỗ tay và reo hò tại một địa điểm không được tiết lộ tại Bắc Triều Tiên.

حکومت مخالف جماعتیں، غیر جانبدار تجزیہ کار اور قانونی ماہرین توہینِ عدالت سے متعلق مجوزہ قانون کو آئین سے متصادم قرار دے رہے ہیں۔

پاکستان میں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز شخصیات کو توہین عدالت کے الزام پر قانونی چارہ جوئی سے مستثنیٰ قرار دینے سے متعلق آئینی مسودے نے حکومت اور عدالیہ کے درمیان مزید کشیدگی کا خدشہ پیدا کر دیا ہے۔

پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کی جانب سے پارلیمان میں متعارف کرائے گئے اس مسودے کے تحت سرکاری ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران وزیرِ اعظم سمیت وفاقی و صوبائی وزراء کے فیصلوں پر توہین عدالت کا قانون لاگو نہیں ہو سکے گا۔

قومی اسمبلی میں پیر کو انتہائی عجلت میں کثرت رائے سے منظوری کے بعد 13 شقوں پر مشتمل یہ بل اب سینیٹ کی کارروائی کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد آئینی مسودے پر صدرِ مملکت کے دستخط کے بعد یہ باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر لے گا۔

یہ بد نیتی پر مبنی ہے ... دوسرے لفظوں میں چند لوگوں کی جان بچانے کی بات ہے۔
سہیل مظفر
حکومت مخالف جماعتیں، غیر جانبدار تجزیہ کار اور قانونی ماہرین توہینِ عدالت سے متعلق مجوزہ قانون کو آئین سے متصادم قرار دے رہے ہیں۔


غیر سرکاری تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے چیئرمین سہیل مظفر کا کہنا ہے کہ نئے قانون کی منظوری ’’ملک کے مفاد میں نہیں ہوگی‘‘ کیوں کہ یہ آئین کے تحت لوگوں کو حاصل مساوی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

’’یہ بد نیتی پر مبنی ہے اور اس لیے بنایا گیا ہے کہ چند لوگ اس سے فائدہ اُٹھا سکیں، دوسرے لفظوں میں چند لوگوں کی جان بچانے کی بات ہے۔ مثلاً اگر وزیر اعظم دوبارہ خط لکھنے سے انکار کرتے ہیں تو ان کو اس (توہین عدالت کے جرم میں عدالتی کارروائی) سے استثنیٰ حاصل ہوگا، اُن سے جواب طلبی نہی کی جا سکے گی اور سپریم کورٹ کچھ نہیں کر سکے گی۔‘‘

تاہم پیپلز پارٹی کے رہنما ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجوزہ قانون کا مقصد عدلیہ کو نشانہ بنانا نہیں بلکہ ریاستی اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل عرفان قادر کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف سے اُن کا موقف معلوم کرکے 12 جولائی (جمعرات) تک عدالت کو بتائیں کہ حکومت صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ بد عنوانی کا مقدمہ دوبارہ کھلوانے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھے گی یا نہیں۔

وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے۔

عدالتِ عظمیٰ کو وزیرِ اعظم کے موقف سے آگاہ کرنے کا معاملہ بدھ کو اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی زیر بحث آیا، جہاں وزیرِ قانون نے شرکاء کو بتایا کہ اُنھیں مسٹر اشرف کو مشورہ دینے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔


وزیرِ اطلاعات قمر زمان کائرہ نے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس تاثر کو مسترد کیا کہ حکومت کوئی ’’تاخیری حربے‘‘ استعمال کر رہی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ چونکہ عدالت نے حکومت سے جواب طلب کیا ہے اس لیے قواعد و ضوابط کے مطابق ایسے معاملات مشاورت کے لیے کابینہ میں زیر غور آنے چاہیئں۔

’’یہ بہت اہم، حساس اور پاکستان کے نظام کے تسلسل کا معاملہ ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے آج باقاعدہ وزیرِ قانون کو ہدایت دی ہے کہ فوری طور پر چند دنوں کے اندر یہ بات طے کر لی جائے ... اس معاملے پر اگر اُنھوں (وزیر قانونِ) نے وقت مانگا ہے تو یہ مناسب ہے اور یہ عدالت کی کوئی حکم عدولی نہیں ہے۔‘‘

سپریم کورٹ نے سوئس حکام کو خط لکھنے سے انکار پر اپریل میں اُس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اُن کی پارلیمان کی رکنیت سے نا اہلیت کا فیصلہ دیا تھا۔

حکمران پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ مسٹر زرداری جب تک عہدہ صدارت پر براجمان ہیں اُن کو آئین کے تحت استثنیٰ حاصل ہے، اس لیے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا جائے گا۔