’حافظ سعید کی گرفتاری پاکستان کا اندرونی معاملہ‘

  • ج

پاکستان کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ کالعدم لشکر طیبہ کے بانی رہنما حافظ محمد سعید کے خلاف قانونی کارروائی اُن کے ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔

جمعرات کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر گیلانی نے کہا کہ اگر امریکہ کے پاس حافظ سعید کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد ہیں تو وہ پاکستان کو فراہم کیے جائیں۔

’’ہماری عدلیہ آزاد ہے اور پہلے بھی (اگر حافظ سعید کے خلاف) کوئی مقدمہ تھا تو وہ ٹھوس شواہد نا ہونے کی وجہ سے خارج ہو گیا۔‘‘

پاکستانی وزیر اعظم نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کو بتایا کہ اُنھوں نے ایک روز قبل اسلام آباد کے دورے پر آئے ہوئے امریکی نائب وزیرِ خارجہ ٹام نائیڈز کے ساتھ بات چیت میں بھی یہ معاملہ اُٹھایا تھا۔

’’ہم نے کہا کہ ہماری پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی اور ہم (اراکین پارلیمان) امریکہ کے ساتھ اشتراک عمل کی نئی شرائط طے کر رہے ہیں اور اس موقع پر ہمیں (امریکہ کی طرف سے) مثبت پیغامات آنے چاہیئں، ایسے منفی پیغامات نہیں آنے چاہیئں جن کے باعث پہلے سے موجود اعتماد کا فقدان بڑھ جائے۔‘‘

وزیرِ اعظم کے خطاب سے قبل ایوان میں موجود حزب مخالف کی جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنی تقاریر میں امریکہ کی طرف سے حافظ سعید کی گرفتاری پر خطیر انعامی رقم کے اعلان پر کڑی تنقید اور اس کی پُرزور مذمت کی۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان اور جمیعت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن تنقیدی تقاریر کرنے والوں میں شامل تھے۔

حافظ سعید سے متعلق امریکی اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کے مہلک حملے کے رد عمل میں پاکستان کی پارلیمان میں امریکہ اور اتحادی افواج کے ساتھ تعاون کی نئی شرائط طے کرنے کا عمل جاری ہے۔

جمعرات کو ایک ہفتے کے وقفے کے بعد شروع ہونے والے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں بھی ان ہی شرائط پر بحث کی جانی تھی لیکن زیادہ تر پارلیمانی کارروائی کی توجہ حافظ سعید کے معاملے پر رہی۔

امریکہ نے رواں ہفتے کالعدم لشکر طیبہ کے بانی رہنما کی گرفتاری یا عدالت سے اُسے سزا دلوانے میں مدد کرنے پر ایک کروڑ ڈالر کے نقد انعام کا اعلان کیا تھا لیکن اس امریکی اقدام پر پاکستان میں یہ کہہ کر شدید ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ واشنگٹن کا یہ فیصلہ بھارتی دباؤ کا نتیجہ ہے۔