حقانی نے قومی سلامتی کا مشیر بننے کے لیے یہ سب کیا: منصور اعجاز

حقانی نے قومی سلامتی کا مشیر بننے کے لیے یہ سب کیا: منصور اعجاز

پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز کا الزام ہے کہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے اُن سے جو متنازع پیغام لکھوایا تھا اس کے پیچھے ان کا یہ خواب تھا کہ وہ واپس جا کر پاکستان کے قومی سلامتی کے نئے مشیر کا عہدہ سنبھال لیں اور دہشت گردی کے خلاف امریکہ اور پاکستان کے درمیان ہونے والی تمام کارروائیوں میں مرکزی کردار ادا کریں۔

http://www.youtube.com/embed/1RI71DWjzIc

یہ الزام مسٹر اعجاز نے پاکستانی سفیر پر جمعرات کی رات وائس آف امریکہ کے ایک خصوصی انٹرویو میں لگایا۔ ’’حقانی اس کے آرکیٹیکٹ تھے، حقانی اس کے مصنف تھے۔ میں اُس روز محض ایک ٹائپسٹ تھا۔‘‘

منصور اعجاز

اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ فائننشل ٹائمز میں ان کا کالم چھپنے کے دو منٹ بعد ہی انھیں مسٹر حقانی کی کال آئی جس میں انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ سب لوگ یہ سمجھ جائیں گے کہ کالم میں مذکورہ اہم سفارت کار وہی ہیں۔

گزشتہ ماہ برطانوی اخبار ’فائننشل ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں مسٹر اعجاز نےالزام لگایا تھا کہ ایک اعلٰی پاکستانی سفارت کار نے فوج اور دفتر خارجہ کی پیٹھ پیچھے اُن سے رابطہ کر کے پاکستان کے صدر آصف زرداری کا ایک مبینہ خط اُس وقت کے امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک ملن کو پہنچانے کی ذمہ داری سونپی تھی۔

مسٹر اعجاز کے بقول دو مئی کو ایبٹ آباد میں خفیہ امریکی آپریشن میں اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستانی صدر کو خدشہ تھا کہ فوج بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرلے گی اور وہ چاہتے تھے کہ ایڈمرل ملن پاکستانی فوج کے اہم عہدیداروں کو یہ پیغام دیں کہ یہ قدم ناقابل قبول ہوگا۔

جواب میں امریکی حکومت سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر ان کی بات مان لی گئی تو پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر اور دیگر عہدیداروں کو تبدیل کر کے ان کی جگہ امریکہ کی پسند کے عہدیدار لگا دیے جائیں گے۔

منصور اعجاز کے مطابق ان کے کالم پر اٹھنے والے تنازع کے بعد ان کی کئی دفعہ مسٹر حقانی سے فون پر بات ہو چکی ہے جس میں دونوں ہی فریقوں کا لہجہ دوستانہ ہوتا ہے اور آخری دفعہ جب ان سے بات ہوئی تھی تو مسٹر حقانی نے انھیں بتایا تھا کہ وہ اب کبھی ان پر اعتبار نہیں کریں گے لیکن ہمیشہ ان کے دوست رہیں گے اور مہذب طریقے سے ان سے الگ ہونا چاہیں گے۔

حسین حقانی

دوسری طرف پاکستانی سفیر حسین حقانی کا اصرار ہے کہ انھوں نے ایسا کوئی پیغام ’’نہ لکھا، نہ پڑھا، نہ پہنچایا۔‘‘ پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ وہ صدرِ پاکستان کے حکم پر پاکستان پہنچنے والے ہیں اور اس معاملے کی تحقیقات پر انھیں کوئی اعتراض نہیں لیکن انھیں یہ شکایت ضرور ہے کہ پاکستان میں کچھ عناصر پہلے سے ان کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔

حسین حقانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جمہوری حکومت کو بچانے میں کسی امریکی فوجی کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا۔

منصور اعجاز اور پاکستانی سفیر کے تعلقات بہت پرانے سمجھے جاتے ہیں اور مسٹر اعجاز کے مطابق انھیں ایک دوسرے کا بے نظیر بھٹو کے زمانے سے علم تھا کیونکہ مسٹر حقانی بے نظیر کے بے حد قریب تھے اور مسٹر اعجاز کی اکثر بے نظیر سے ملاقات ہوتی تھی۔ لیکن مسٹر اعجاز اور مسٹر حقانی کے درمیان براہ راست تعلقات گیارہ ستمبر 2011ء کے بعد بڑھنے شروع ہوئے تھے۔

مسٹر اعجاز کے مطابق جب انہیں نے اپنا کالم لکھا تو اس کا مقصد اس پیغام کو منظر عام پر لانا نہیں تھا بلکہ یہ کالم پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں پر تنقید تھی۔ ان کے مطابق ایڈمرل مائیک ملن نے جب کانگریس کے سامنے اپنے بیان میں حقّانی نیٹ ورک سے پاکستانی ایجنسیوں کے تعلقات پر تنقید کی اور پاکستان میں ان پر بہت لے دے ہوئی تو انہوں نے ایڈمرل ملن کے دفاع میں یہ کالم لکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ لوگوں پر واضح کریں کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں واقعی ملک کے لیے خطرہ ہو سکتی ہیں۔

پاکستانی سفیر حسین حقانی نے اس خیال کو مضحکہ خیز قرار دیا کہ انہیں واشنگٹن میں ہوتے ہوئے امریکی حکومت سے رابطہ کرنے کے لیے کسی تیسرے شخص کی ضرورت تھی۔