پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ ہے کہ حکومت مذاکرات کے ذریعے سیاسی کشیدگی کا حل چاہتی ہے۔
صحافیوں کے ایک گروپ سے ملاقات میں وزیراعظم نے کہا کہ طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اُنھوں نے کہا کہ حکومت نے مذاکرات شروع کیے اور اب بھی مسئلے کے حل کے لیے بات چیت کے لیے پرعزم ہے۔
اس سے قبل پاکستان میں حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف نے حکومت سے مذاکرات کا عمل معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے الزام لگایا کہ حکومت طاقت کے استعمال کا ارادہ رکھتی ہے۔
عمران خان نے امریکہ پر بھی الزام لگایا کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان میری ہارف نے بدھ کو معمول کی ’پریس بریفنگ‘ میں پاکستان کی سیاسی صورت حال سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ نواز شریف پانچ سال کے لیے وزیرِاعظم منتخب ہوئے ہیں اور امریکہ ان کے استعفے کے مطالبے کی حمایت نہیں کرتا ہے۔
تاہم جمعرات کو امریکی سفارت خانے سے جاری ایک بیان میں واضح کیا گیا کہ امریکہ اسلام آباد میں ہونے والے مظاہروں پر نظر رکھے ہوئے۔ بیان میں تمام فریقین پر زور دیا گیا کہ وہ تشدد سے باز رہتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کریں۔
بیان میں کہا گیا کہ پرامن مظاہرے اور اظہار رائے کی آزادی جمہوریت کا حصہ ہے تاہم امریکہ فریقین کے مابین کسی طرح کی بات چیت میں شامل نہیں ہے۔
سفارت خانے کے بیان کے مطابق تشدد اور نجی املاک یا سرکاری عمارتوں کی توڑ پھوڑ سیاسی معاملات کے حل کے لیے کسی طور قابل عمل طریقہ نہیں، تاہم امریکہ سیاسی عمل کی تبدیلی کے لیے کسی بھی ماورائے آئین اقدام کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ امریکہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ تمام فریق اپنے اختلافات پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کریں جس سے ملک کے جمہوری اداروں کی مضبوطی اور قانون کی عمل داری کو تقویت ملے۔
عمران خان نے وزیراعظم کے استعفےٰ کا ایک بار پھر مطالبہ کیا اور دعویٰ کیا کہ وہ اپنے اس مطالبے کو منوائے بغیر احتجاج ختم نہیں کریں گے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین ’سول نافرنی‘ کی تحریک چلانے کا اعلان بھی کر چکے ہیں اور جمعرات کو اُنھوں نے ایک بار پھر لوگوں سے کہا کہ وہ ٹیکس ادا نا کریں۔
’’پہلے تو کوشش کریں کہ ادھر پہنچیں، جو نہیں پہنچ سکتے وہ اپنے اپنے شہروں میں مظاہرے کریں۔۔۔ سول نافرنی کریں۔‘‘
بدھ کو تحریک انصاف اور حکومت کی ٹیموں کے درمیان ابتدائی بات چیت ہوئی تھی اور مذاکرات کا دوسرا دور جمعرات کی دوپہر ہونا تھا۔ حکومت کی ٹیم تو اس مقام پر پہنچ گئی جہاں بات چیت ہونی تھی۔
لیکن تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شاہ محمود قریشی نے الزام لگایا کہ حکومت کا رویہ جارحانہ ہے اس لیے اس عمل کو معطل کیا جا رہا ہے۔
’’مذاکرات معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اگر حکومت اپنے رویے پر نظرثانی کرتی ہے تو ہمارا رویہ مثبت پائیں گے۔ ہم مذاکرات کے لیے آج بھی تیار ہیں کل بھی تیار تھے، اگر وہ (جارحانہ رویہ اپناتے ہیں) تو ایک سیاسی کارکن کے طور پر ہم جو اپنا دفاع کر سکتے ہیں کریں گے۔‘‘
وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ اب تک حکومت کی طرف سے دھرنوں میں شامل کسی کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کیا گیا۔
’’جو دھرنے میں بیٹھا ہوا تھا، حکومت کی طرف سے یا پولیس کی طرف سے، اُس میں کسی ایک بھی فرد کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔۔۔۔ ہنسی خوشی گھانے بھی لگے ہوتے ہیں، ناچ بھی ہو رہے ہوتے ہیں، بلکہ خان صاحب تک کل سے کہہ رہے ہیں کہ وہ جشن منا رہے ہیں تو ان کے جشن کے عمل میں تو ہم کسی طرح کی مداخلت نہیں کی‘‘
عمران خان اور طاہرالقادری اپنے ہزاروں حامیوں کے ساتھ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
حکومت کے مذاکرات کاروں نے طاہرالقادری کی جماعت عوامی تحریک کے رہنماؤں سے بھی بات چیت کی ہے۔
وفاقی وزرا کی طرف سے یہ بیانات بھی سامنے آئے ہیں کہ وہ مذاکرات کے ذریعے اس معاملے کو حل کرنا چاہتے ہیں اور اس ضمن میں کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔