گزشتہ روز کے جلسے اور لانگ مارچ کی گونج ابھی تک جاری ہے۔ آزاد خیال مبصرین اور سیاست کے داوٴ پیچ پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کل کا جلسہ دراصل ایک ’بگ شو‘ تھا
پاکستان کے سیاسی ایوانوں میں اس وقت سب سے زیادہ گونج متوقع طور پر 14جنوری کو ہونے والے لانگ مارچ کی ہے جس کا اعلان 23دسمبر کو پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد تو گویا سیاسی ایوانوں میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے۔ رہی سہی کسر منگل کو کراچی میں ایم کیوایم اور منہاج القرآن کے جلسے نے پوری کردی۔
گزشتہ روز کے جلسے اور لانگ مارچ کی گونج ابھی تک جاری ہے۔ آزاد خیال مبصرین اور سیاست کے داوٴ پیچ پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کل کا جلسہ دراصل ایک ”بگ شو “ تھا ۔ اس شو کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ 24گھنٹے سے بھی کم مدت میں صدر زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی دو ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔
مبصرین ان ملاقاتوں کو خاصی اہمیت دے رہے ہیں جبکہ ’بگ شو‘ کے ایک دن بعد یعنی بدھ کو اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کا بھی لانگ مارچ کے حوالے سے رد عمل سامنے آگیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ کے شرکا کو روکا نہیں جائے گا۔
ادھر کراچی میں موجود صدر آصف علی زرداری نے منگل کے بعد بدھ کوبھی وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے ملاقات کی ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق دونوں رہنماوٴں نے ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ ، ایم کیو ایم کی جانب سے حمایت کے اعلان اور مسلم لیگ ق اس جانب مثبت اشاروں کے بعد تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس کے علاوہ لانگ مارچ سے پہلے حکومتی حکمت عملی پر بھی غور کیا گیا۔اس موقع پر پیپلزپارٹی کے دیگر سینئر رہنما بھی موجود تھے۔
دلچسپ صورتحال:
مبصرین ملک کی موجودہ صورتحال کو انتہائی دلچسپ قرار دے رہے ہیں۔طاہر قادری کی جانب سے اسلام آباد کو تحریر اسکوائر بنانے کے اعلان پر بہت سے حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ انہیں صرف حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کی ہی حمایت کیوں حاصل ہے، حزب مخالف کی دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن درپردہ اور جے یو آئی ف کھلم کھلا ان کی مخالفت کیوں کر رہی ہے؟
کہیں اس تحریک کی ماسٹر مائنڈ پیپلزپارٹی خود ہی تو نہیں؟ اس کا جواز یہ پیش کیا جارہا ہے کہ گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں حکمران اتحاد سے عوام بہت سی مشکلات کا شکار رہے ہیں اور یہ امکان موجود ہے کہ آئندہ انتخابات میں ان کی مقبولیت کم ہو سکتی ہے، لہذا ہو سکتا ہے کہ لانگ مارچ سے پیپلزپارٹی کی حکومت ختم ہو جائے اور وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ آئندہ انتخاب میں مظلوم بن کر عوام میں پیش ہو۔
دوسری جانب صدر آصف علی زرداری گڑھی خدا بخش میں 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی پانچویں برسی پر خطاب میں واضح کر چکے ہیں کہ اگر کوئی مصر طرز کے انقلاب کی پاکستان میں بات کر رہا ہے تو اسے کامیاب نہیں ہونے دیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ طاہر القادری کی تحریک میں پیپلزپارٹی کا کوئی کردار نہیں۔ سیاسی پنڈتوں کے نزدیک اگر ایسا ہوا توآنے والی صورتحال پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں کو پھر سے ایک ساتھ کھڑا کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں ، کیونکہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں سمجھی جاتی۔
الطاف حسین کی عدالت میں پیشی؟ مشرف کی وطن واپسی؟
یاد رہے کہ ججزکے بارے میں نامناسب الفاظ پر سپریم کورٹ نے ایم کیو ایم کے لندن میں مقیم قائد الطاف حسین کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس بھی جاری کر رکھا ہے اور انہیں سات جنوری کو ذاتی حیثیت میں طلب کر رکھا ہے۔ ادھر سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ آٹھ جنوری کو کراچی میں پارٹی جلسے سے خطاب میں وطن واپس آنے کی تاریخ قوم کو بتائیں گے۔
اس تمام تر تناظر میں تجزیہ کار پاکستان میں نئے سال کے آغاز پر کافی ہلچل دیکھ رہے ہیں۔
گزشتہ روز کے جلسے اور لانگ مارچ کی گونج ابھی تک جاری ہے۔ آزاد خیال مبصرین اور سیاست کے داوٴ پیچ پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کل کا جلسہ دراصل ایک ”بگ شو “ تھا ۔ اس شو کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ 24گھنٹے سے بھی کم مدت میں صدر زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی دو ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔
مبصرین ان ملاقاتوں کو خاصی اہمیت دے رہے ہیں جبکہ ’بگ شو‘ کے ایک دن بعد یعنی بدھ کو اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کا بھی لانگ مارچ کے حوالے سے رد عمل سامنے آگیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ کے شرکا کو روکا نہیں جائے گا۔
ادھر کراچی میں موجود صدر آصف علی زرداری نے منگل کے بعد بدھ کوبھی وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے ملاقات کی ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق دونوں رہنماوٴں نے ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ ، ایم کیو ایم کی جانب سے حمایت کے اعلان اور مسلم لیگ ق اس جانب مثبت اشاروں کے بعد تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس کے علاوہ لانگ مارچ سے پہلے حکومتی حکمت عملی پر بھی غور کیا گیا۔اس موقع پر پیپلزپارٹی کے دیگر سینئر رہنما بھی موجود تھے۔
دلچسپ صورتحال:
مبصرین ملک کی موجودہ صورتحال کو انتہائی دلچسپ قرار دے رہے ہیں۔طاہر قادری کی جانب سے اسلام آباد کو تحریر اسکوائر بنانے کے اعلان پر بہت سے حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ انہیں صرف حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کی ہی حمایت کیوں حاصل ہے، حزب مخالف کی دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن درپردہ اور جے یو آئی ف کھلم کھلا ان کی مخالفت کیوں کر رہی ہے؟
کہیں اس تحریک کی ماسٹر مائنڈ پیپلزپارٹی خود ہی تو نہیں؟ اس کا جواز یہ پیش کیا جارہا ہے کہ گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں حکمران اتحاد سے عوام بہت سی مشکلات کا شکار رہے ہیں اور یہ امکان موجود ہے کہ آئندہ انتخابات میں ان کی مقبولیت کم ہو سکتی ہے، لہذا ہو سکتا ہے کہ لانگ مارچ سے پیپلزپارٹی کی حکومت ختم ہو جائے اور وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ آئندہ انتخاب میں مظلوم بن کر عوام میں پیش ہو۔
دوسری جانب صدر آصف علی زرداری گڑھی خدا بخش میں 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی پانچویں برسی پر خطاب میں واضح کر چکے ہیں کہ اگر کوئی مصر طرز کے انقلاب کی پاکستان میں بات کر رہا ہے تو اسے کامیاب نہیں ہونے دیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ طاہر القادری کی تحریک میں پیپلزپارٹی کا کوئی کردار نہیں۔ سیاسی پنڈتوں کے نزدیک اگر ایسا ہوا توآنے والی صورتحال پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں کو پھر سے ایک ساتھ کھڑا کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں ، کیونکہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں سمجھی جاتی۔
الطاف حسین کی عدالت میں پیشی؟ مشرف کی وطن واپسی؟
یاد رہے کہ ججزکے بارے میں نامناسب الفاظ پر سپریم کورٹ نے ایم کیو ایم کے لندن میں مقیم قائد الطاف حسین کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس بھی جاری کر رکھا ہے اور انہیں سات جنوری کو ذاتی حیثیت میں طلب کر رکھا ہے۔ ادھر سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ آٹھ جنوری کو کراچی میں پارٹی جلسے سے خطاب میں وطن واپس آنے کی تاریخ قوم کو بتائیں گے۔
اس تمام تر تناظر میں تجزیہ کار پاکستان میں نئے سال کے آغاز پر کافی ہلچل دیکھ رہے ہیں۔