پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو پارلیمانی سیاست کے لیے تاحیات نا اہل قرار دیے جانے پر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کا عدالتی فیصلوں پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے جب کہ غیر جانبدار حلقے اس موجودہ صورتحال کا ذمہ دار سیاستدانوں کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس ضمن میں پارلیمان موثر کردار ادا کرنے میں کامیاب دکھائی نہیں دی۔
بعض مبصرین کے خیال میں عدلیہ گو کہ قانون اور آئین کے مطابق فیصلے کرتی ہے لیکن حالیہ فیصلوں پر جس طرح سے تنقید ہو رہی ہے یہ عدلیہ کے وقار کو متاثر کرنے کا سبب بھی بن رہی ہے۔
جمعہ کو عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کی آئین کی شق 62 (ون۔ ایف) کے تحت نااہلی کی مدت کا فیصلہ سناتے ہوئے انھیں تاحیات نااہل قرار دیا تھا۔
حکمران جماعت کے راہنماؤں کی طرف سے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے ایک بار پھر اپنے اس موقف کا اظہار دیکھنے میں آیا کہ سیاست کے فیصلے عدالتوں میں نہیں بلکہ عوام کے ووٹ سے ہوتے ہیں۔
ہفتہ کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی بہاولپور کے قریب ایک تقریب سے خطاب میں اسی موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کے فیصلوں کا احترام ہوتا ہے اور وہ نافذ بھی ہو جاتے ہیں لیکن ان کے بقول ایسے فیصلوں کی تاریخ میں عزت نہیں ہوتی۔
"کل فیصلہ ہوا کہ زندگی بھر کے لیے نواز شریف کو سیاست سے باہر کر دیتے ہیں، یہ فیصلہ بھی قبول ہے لیکن تاریخ آپ کو کچھ اور بتائے گی میری یہ بات یاد رکھیں۔۔۔جو فیصلے ہو گئے وہ قانونی تاریخ کا حصہ بن گئے وہ نافذ ہوگئے لیکن ان کو کبھی تاریخ نے عزت نہیں دی، فیصلے وہی ہوتے ہیں جو پاکستان کے عوام کرتے ہیں۔"
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور معروف قانون دان کامران مرتضیٰ کہتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ سیاست کے فیصلے عوام کرتے ہیں لیکن ملک کے قانون کے مطابق جب کوئی معاملہ عدالت میں جاتا ہے تو عدالتوں کو اس پر فیصلہ دینا ہوتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ حالیہ فیصلوں سے عدلیہ کی تکریم متاثر ہو سکتی ہے۔
"یہ فیصلے اب پبلک پراپرٹی بن گئے ہیں لوگ اس پر اب تبصرہ کریں گے تو مجھے یہ تناؤ بڑھتا نظر آ رہا ہے اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی عدالتوں کی عزت اس حوالے سے متاثر ہوتی نظر آ رہی ہے۔"
سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی کے خیال حکمران جماعت اور عدلیہ میں تناؤ مزید بڑھے گا لیکن وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس صورتحال کی ذمہ داری سیاستدانوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔
"ہم نے گزشتہ آٹھ سالوں میں جمہوریت دیکھی ہم نے پارلیمان کو کمزور ہوتے دیکھا کجا یہ کہ پارلیمان مضبوط ہوتی اور سیاسی قوتیں مضبوط ہوتیں۔ جس شق کا یہ (نواز شریف) شکار ہوئے اس کے لیے پیپلز پارٹی نے ان کے ہاتھ جوڑے تھے کہ اس کو ہٹا دیں وہ انھوں نے نہیں کرنے دیا اور آج اس کے پھندے میں یہ آئے اور یہی کوتاہ نظری ہے ہمارے سیاستدانوں کی صرف فوری فائدے دیکھتے ہیں چیزوں میں وہ جمہوریت کے طویل المدت مفاد میں فیصلے نہیں کرتے۔"
گزشتہ سال جولائی کے بعد عدالت عظمٰی کی طرف سے یہ تیسرا فیصلہ ہے جو نواز شریف کے خلاف آیا ہے۔ پہلے فیصلے میں انھیں وزارت عظمیٰ کے منصب کے لیے نااہل قرار دیا گیا دوسرے فیصلے میں انھیں سیاسی جماعت کے قیادت کے لیے بھی نا اہل قرار دیا گیا جب کہ اس تازہ فیصلے میں نا اہلی کی مدت کو تاحیات قرار دیا گیا۔