شراکت اقتدار پر بات چیت فیصلہ کن مرحلے میں داخل

شراکت اقتدار پر بات چیت فیصلہ کن مرحلے میں داخل

حکمران پیپلز پارٹی اور حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ق) کے درمیان شراکت اقتدار کے لیے بات چیت بظاہر فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے اور فریقین نے توقع ظاہر کی ہے کہ آئندہ چند روز میں حتمی سمجھوتہ کا اعلان کردیا جائے گا۔

مسلم لیگ (ق) کے قائدین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس وقت جن بڑے مسائل کا سامنا ہے ان میں سرِفہرست تشویش ناک معاشی صورت حال ہے جس کی وجہ سے بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے اور معیشت کمزور ہونے سے ملک کے دفاع پر اثر پڑے گا۔ ان سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کو احسا س ہوگیا ہے کہ وہ اکیلے ان مسائل کو حل نہیں کرسکتی اس لیے اُس نے مسلم لیگ (ق) کے ساتھ بات چیت شروع کررکھی ہے۔

صدر آصف علی زرداری سے مذاکرات کرنے والی ٹیم میں مسلم لیگ (ق) کے پارلیمانی لیڈر فیصل صالح حیات بھی شامل ہیں۔ جمعہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ اشتراک عمل پر ہونے والی بات چیت محض وزارتوں کے حصول تک محدود نہیں رہے گی۔” کیونکہ ہمیں (پی پی پی) کی طرف سے جو پیشکش کی گئی ہے وہ ایک طویل المدتی سیاسی اشتراک ہے جس پر ہماری جماعت غور وخوض کررہی ہے۔ اس میں آئندہ انتخابات میں اتحاد، صوبائی و بلدیاتی انتخابات اور سینیٹ کے الیکشن میں سیٹ-ٹو-سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور دوسرے ایسے اُمور شامل ہیں۔“

فیصل صالح حیات کا کہنا ہے کہ اب تک ہونے والی بات چیت میں پیش رفت اسی رفتار سے جاری رہی اورخاص طور پر مسلم لیگ (ق) کے اندر اس معاملے پر ہم آہنگی رہی تو”مجھے لگتا ہے کہ آئندہ چند روز میں شاید ہم کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ جائیں“۔

اُنھوں نے کہا کہ مذاکرات کی تکمیل کے لیے کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی جاسکتی ہے ۔”سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی ۔ مذاکرات جاری ہیں اور آئندہ دنوں میں بھی جاری رہیں گے۔ “

پیپلز پارٹی کی رکن پارلیمنٹ نفیسہ شاہ نے مسلم لیگ (ق )کے ساتھ اشراک عمل پر ہونے والی بات چیت کا دفاع کرتے ہوئے وی او اے کو بتایا کہ صدر آصف علی زردار ی روز اول سے مفاہمت کی سیاست کو فروغ دینے پر یقین رکھتے ہیں اسی لیے اس وقت کوئی بھی ایسی جماعت نہیں ہے جو مرکزی اور صوبائی حکومت میں نہ ہو۔

”لیکن جب پیپلز پارٹی کو پنجاب میں حکومت سے الگ کیا گیا تو پھر پارٹی کو متبادل راہیں تلاش کرنا پڑیں اور مسلم لیگ (ق) کے ساتھ بات چیت بھی اُسی کا نتیجہ ہے۔ “

نفیسہ شاہ نے کہا کہ افراط زر، توانائی کا بحران، غربت اور مہنگائی سمیت دیگر مسائل کو حل کرنے کے لیے جتنی زیادہ سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوکر پالیسی سازی اور فیصلے کریں گی تو وہی پاکستان کے لیے بہتر ہوگا۔

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ق) کے ایک سینیئر رہنما وسیم سجاد نے وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی سے بات چیت شروع کرنے کی ایک بڑی وجہ ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کا امکان ہے۔ ”کیونکہ اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ انتخابات میرے اندازے کے مطابق اگلے سال مارچ کے بعد کسی وقت بھی ہو سکتے ہیں۔ تو اُس کے لیے بھی سوچنا ہوتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں ہماری حکمت عملی کیا ہوگی۔“

وسیم سجاد نے کہا کہ اُن کی جماعت نے بہت کوشش کی کہ مسلم لیگی دھڑوں کے درمیان اتحاد ہو جائے لیکن مسلم لیگ (ن) نے بہت سخت رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ ”تو اس لیے مسلم لیگ (ق) کو پاکستان کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے، آئندہ کی سیاست کو سامنے رکھتے ہوئے یہ دیکھنا تھا کہ آئندہ ہم کس طرح کا اتحاد کریں جو ملک کی بہتری میں ہو۔ “

خیال رہے کہ فروری 2008 ء کے عام انتخابات کے چند روز بعد پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام مسلم لیگ (ق) پر لگاتے ہوئے اُس ”قاتل لیگ“ قرار دیا تھا۔

اس کے باوجود مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤ ں کے ساتھ سیاسی مفاہمت کی کوششوں کا دفاع کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں ارتقائی عمل کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اگر قومی مفاد کے معاملات پر پارٹیاں اکٹھی ہوں تو ایسی سیاسی مفاہمت کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔