عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد میں تاخیر کے تاثر پر ن لیگ اور تحریک انصاف کی ناراضگی

امریکہ کی جنوب مغربی ریاست ایروزونا میں اینٹیلوپ کینیئن

مسلم لیگ ن کے رہنما اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے جہاں عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد میں تاخیر سے متعلق حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی وہیں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی اس معاملے پر فوج سے تعاون کی اپیل کی ہے ۔ ماہرین کے مطابق عدلیہ کے فیصلوں پر حکومتی ٹال مٹول کا تاثران جماعتوں کو ایک مرتبہ پھر قریب لا سکتا ہے جو عدلیہ بحالی تحریک میں مرکز نگاہ رہیں۔

منگل کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ حکومت عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ کر کے یہ تاثر دے رہی ہے کہ اس نے عدلیہ کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے اور اگر ایسا ہے تو پیپلزپارٹی کی کھلی جنگ کا چیلنج مسلم لیگ ن کو قبول ہے ۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے لئے مسلم لیگ ن پنجاب حکومت سمیت کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی ۔

شہباز شریف نے مزید کہا کہ حکومت اپنی بدعنوانیاں چھپانے کے لئے عدلیہ سے ٹکراؤ چاہتی ہے جو تباہی کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ انصاف نہیں ہو گا تو پاکستان کا وجود بھی خطرے میں پڑھ سکتا ہے ۔ عدلیہ کی آزادی کے لئے عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں جنہیں رائیگاں نہیں جانے دیں گے ، عدلیہ کے فیصلوں پر صدر پاکستان کے ساتھ وزیر اعظم کا رویہ بھی مناسب نہیں ۔انہوں نے تمام جماعتوں کو دعوت دی کہ تمام جماعتیں عدلیہ کے خلاف محاز آرائی کرنے والی حکومت کے خلاف ہمارا ساتھ دیں ، ہم ہر جماعت کا خیر مقدم کریں گے ۔

ادھر اٹک میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے پر حکومت کے خلاف فوج سے مطالبہ کیا کہ وہ عدلیہ کا ساتھ دے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل در آمد کے لئے تحریک انصاف ملک بھر میں مہم چلائے گی جبکہ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے باہر دھرنے اور احتجاجی مظاہرے بھی کئے جائیں گے۔اس موقع پر عمران خان نے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے خلاف ہمیشہ کی طرح ان کی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ کبھی پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم سے انتخابی اتحاد نہیں کریں گے۔

مبصرین کے مطابق آج کے دونوں رہنماؤں کے بیانات اچانک نہیں بلکہ یہ گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کی قیام گاہ پر ہونے والے اجلاس کی ایک کڑی ہے ۔ اس اجلاس میں مسلم لیگ ن کے رہنماؤں راجہ ظفر الحق ، جاوید ہاشمی اور پیپلزپارٹی کے شاہ محمود قریشی نے شرکت کی۔ اس معاملے پر فیصلہ کیا گیا کہ اس معاملے کو پاکستان تحریک انصاف اور وکلاء کے سامنے بھی پیش کیا جائے گا اور مشترکہ حکمت عملی ترتیب دی جائے گی ۔

حکومت اور عدلیہ میں ٹکراؤ کا تاثر دینے والے مقدمات

سپریم کورٹ نے قومی مفاہمتی آرڈی نینس( این آر او ) کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا ۔ این آر او کے تحت ختم تمام مقدمات کو این آر او کے اجراء کے دن 5 اکتوبر دو ہزار سات سے پہلے والی پوزیشن پر بحال کر دیا گیا ۔صدر زرداری کے بیرون ملک مقدمات کی بحالی کا حکم دیا گیا اور حکومت کو ہدایت کی کہ سوئس مقدمات کی بحالی کے لئے درخواست دے ، تاہم ایسا نہ ہو سکا اور تقریباً ایک ماہ بعد اس فیصلے پر حکومت کی جانب سے نظر ثانی کی اپیل دائر کر دی گئی ۔

مسلم لیگ ن کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی درخواست پر سپر یم کورٹ نے اس وقت کے چیئرمین نیب جسٹس (ر) دیدار حسین کی تقرری کو کالعدم قرار دیا ۔درخواست میں کہا گیا تھا کہ دیدار حسین پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر دو مرتبہ رکن اسمبلی رہ چکے ہیں لہذا ان کی غیر جانبدار ی مشکوک ہے ۔نئے چیئرمین کی تقرری کے لئے واضع مہلت کے باوجود تقرر نہ ہو سکا ۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے خلاف پی پی پی کی طرف سے سندھ میں ہڑتال کی گئی اور سندھ اسمبلی میں شدید احتجاج کیا گیا ۔

پی سی او ججز کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود تاحال وفاقی وزارت قانون نے پی سی او جج سے متعلق نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا ۔ صدر آصف علی زرداری کی جانب سے پی سی او ججز کے خلاف ریفرنس بھیج دیا گیا جسے عدالت عظمیٰ نے مسترد کر دیا اور واضح کیا کہ سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ مذکورہ پی سی او ججز کبھی جج تھے ہی نہیں ۔

ایف نائن پارک اسلام آباد کی زمین سستے داموں لیز پر دینے سے متعلق مقدمے میں سابق چیئرمین سی ڈی اے کامران لاشاری کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا تاہم اس پر عمل درآمد نہیں ہوا ۔ این ایل جی کوٹہ کیس میں بھی عدالت نے ذمہ دار سرکاری شخصیات کے خلاف کارروائی کا حکم دیا لیکن اس پر بھی بدستور عمل نہیں ہوا ۔

اس کے علاوہ این آئی سی ایل اور حج بدانتظامی سے متعلق مقدمات میں تحقیقات کے لئے جو افسران مقرر کرنے کا سپریم کورٹ نے حکم دے رکھا ہے اس پر بھی تاحال عملدرآمد نہیں ہوا۔