نواز شریف نے حکومت پر تنقید اور اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں سے کہا ہے کہ عوام نے مسلم لیگ (ن) کو پانچ سال تک حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے لہذا ان کے راستے میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔
اسلام آباد —
وفاق میں حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور ان کے ہم خیال حلقے تو حکومتی پالیسیوں کے علاوہ گزشتہ سال کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے معاملے پر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) پر تنقید اور اس کے خلاف احتجاج کرتے آ رہے تھے۔
لیکن رواں ہفتے لاہور میں منہاج القرآن کے مرکزی دفتر کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کے دوران ادارے کے کارکنوں اور پولیس کی مڈ بھیڑ میں کم از کم دس افراد کی ہلاکت کے واقعے سے حکومت کے ناقدین میں اضافہ اور ان کے بیانات میں تلخی مزید بڑھ گئی ہے۔
پولیس کی طرف سے منہاج القرآن کے لوگوں کےخلاف کی گئی کارروائی کے مناظر ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے کے بعد انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر بھی حکومت کو آڑھے ہاتھوں لیا جا رہا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنا دیا گیا ہے جو ذمہ داروں کا تعین کرے گا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی جائے گی۔
لیکن منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کینیڈا میں مقیم سربراہ اس عدالتی کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ وہ 23 جون کو پاکستان واپس آ کر حکومت کے خلاف بھرپور احتجاجی تحریک شروع کریں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی طاہر القادری کا ساتھ دینے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ انھوں نے لاہور کے واقعے پر حکومت کو ایک بار پھر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام عائد کیا کہ حکومت نے حزب مخالف کے احتجاج سے خوفزدہ ہو کر پولیس کے ذریعے دہشت پھیلانے کی کوشش کی۔
"تحریک انصاف پہلے ہی دھاندلیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلی ہوئی ہے اور پھر جو قادری صاحب نے اپنا ایجنڈا دینا تھا (اس پر حکومت خوفزدہ ہے)۔۔۔۔۔۔ لیکن ہم جہاں تک ہو سکا (پاکستان عوامی تحریک کا) ساتھ دیں گے انصاف کے حصول کے لیے۔"
لیکن وزیراعظم نواز شریف نے حکومت پر تنقید اور اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں سے کہا ہے کہ عوام نے مسلم لیگ (ن) کو پانچ سال تک حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے لہذا ان کے راستے میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔
جمعہ کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے احتجاج کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ "یہاں ایک جماعت ہڑتال کی کال دیتی ہے، ایک پارٹی آئے روز دھرنے دے رہی ہے، ایک پارٹی روز احتجاج کر رہی ہے مجھے بتائیں کہ یہ سب کس لیے۔۔۔ کارخانے لگ رہے ہیں، سرمایہ کاری ہو رہی ہے دنیا لکھ رہی ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لحاظ سے ٹاپ کے ملکوں میں ہے۔۔۔ اور انقلاب کیا ہوتا ہے، یہ کس انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں۔"
غیر جانبدار مبصرین موجودہ سیاسی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے آ رہے ہیں کہ ملک کو درپیش چیلنجز خصوصاً سلامتی کے خطرات کے تناظر میں ملک کسی بھی طرح کی اندرونی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا لہذا سیاسی قائدین کو تدبر کا مظاہرہ اور تحمل سے کام لینا چاہیے۔
لیکن رواں ہفتے لاہور میں منہاج القرآن کے مرکزی دفتر کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کے دوران ادارے کے کارکنوں اور پولیس کی مڈ بھیڑ میں کم از کم دس افراد کی ہلاکت کے واقعے سے حکومت کے ناقدین میں اضافہ اور ان کے بیانات میں تلخی مزید بڑھ گئی ہے۔
پولیس کی طرف سے منہاج القرآن کے لوگوں کےخلاف کی گئی کارروائی کے مناظر ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے کے بعد انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر بھی حکومت کو آڑھے ہاتھوں لیا جا رہا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنا دیا گیا ہے جو ذمہ داروں کا تعین کرے گا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی جائے گی۔
لیکن منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کینیڈا میں مقیم سربراہ اس عدالتی کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ وہ 23 جون کو پاکستان واپس آ کر حکومت کے خلاف بھرپور احتجاجی تحریک شروع کریں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی طاہر القادری کا ساتھ دینے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ انھوں نے لاہور کے واقعے پر حکومت کو ایک بار پھر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام عائد کیا کہ حکومت نے حزب مخالف کے احتجاج سے خوفزدہ ہو کر پولیس کے ذریعے دہشت پھیلانے کی کوشش کی۔
"تحریک انصاف پہلے ہی دھاندلیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلی ہوئی ہے اور پھر جو قادری صاحب نے اپنا ایجنڈا دینا تھا (اس پر حکومت خوفزدہ ہے)۔۔۔۔۔۔ لیکن ہم جہاں تک ہو سکا (پاکستان عوامی تحریک کا) ساتھ دیں گے انصاف کے حصول کے لیے۔"
لیکن وزیراعظم نواز شریف نے حکومت پر تنقید اور اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں سے کہا ہے کہ عوام نے مسلم لیگ (ن) کو پانچ سال تک حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے لہذا ان کے راستے میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔
جمعہ کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے احتجاج کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ "یہاں ایک جماعت ہڑتال کی کال دیتی ہے، ایک پارٹی آئے روز دھرنے دے رہی ہے، ایک پارٹی روز احتجاج کر رہی ہے مجھے بتائیں کہ یہ سب کس لیے۔۔۔ کارخانے لگ رہے ہیں، سرمایہ کاری ہو رہی ہے دنیا لکھ رہی ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لحاظ سے ٹاپ کے ملکوں میں ہے۔۔۔ اور انقلاب کیا ہوتا ہے، یہ کس انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں۔"
غیر جانبدار مبصرین موجودہ سیاسی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے آ رہے ہیں کہ ملک کو درپیش چیلنجز خصوصاً سلامتی کے خطرات کے تناظر میں ملک کسی بھی طرح کی اندرونی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا لہذا سیاسی قائدین کو تدبر کا مظاہرہ اور تحمل سے کام لینا چاہیے۔