پاکستان کے وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ حکومت احتجاج کرنے والی جماعتوں کے کارکنوں کے خلاف نہ تو کریک ڈاؤن کر رہی ہے اور نہ ہی ایسا کرنے کا کوئی ارادہ ہے۔
تقریباً ایک ماہ سے اسلام آباد میں حکومت مخالف دھرنے دے کر بیٹھی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے قائدین نے اپنے کارکنوں کی گرفتاری پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مذاکرات کو اپنے کارکنوں کی رہائی سے مشروط کرنے کا اعلان کیا تھا۔
پولیس نے جمعہ کو دیر گئے متعدد افراد کو حراست میں لیا تھا اور ہفتہ کی صبح عدالت میں ان کی پیشی کے موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے ضلع کچہری میں احتجاج بھی کیا۔
لیکن گرفتار کیے گئے افراد کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جن پر پی ٹی وی حملے، کار سرکار میں مداخلت اور دیگر جرائم میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
"یہ کارروائی کسی سیاسی جماعت یا دھرنا دینے والوں کے خلاف نہیں ہو رہی۔ یہ ریاستی اداروں پر حملہ کرنے والوں کے حوالے سے ہورہی ہے اور جن لوگوں نے بھی یہ کیے ہیں خواہ وہ دھرنے کے اندر ہوں یا باہر ہوں۔ خواہ وہ ہمیں کسی ہوٹل میں ملیں، برآمدے میں سوئے ہوئے ملیں خواہ اپنے گاؤں میں جائیں ہم انھیں پکڑیں گے۔"
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو باوثوق ذرائع سے خفیہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ دہشت گرد دھرنے کی جگہ پر کوئی تخریبی کارروائی کر سکتے ہیں اس لیے بھی حفاظتی انتظامات کو مزید سخت کیا گیا ہے اور ان کے بقول یہ احتجاج کرنے والوں کی اپنی حفاظت کے لیے بھی ضروری ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سے قبل تحریک انصاف کے ایک مرکزی رہنما جہانگیر ترین نے صحافیوں سے گفتگو میں مذاکراتی عمل معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ " جب تک ہمارے تمام کارکنوں کو رہا نہ کیا جائے، جب تک یہاں راستے نہ کھولے جائیں جب تک ایک ماحول مذاکرات کے لیے نہیں بنے گا ہم مذاکرات نہیں کریں گے۔"
لیکن وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ وہ یقین دہانی کرواتے ہیں کسی بھی بے گناہ کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی اور ان کی اس وضاحت کے بعد حکومت مخالف جماعتوں کو مذاکراتی عمل بحال کر دینا چاہیے۔
"مسائل کا حل صرف مذاکرات ہی ہے اور میرا خیال ہے کہ دونوں جماعتوں کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ اس طریقے سے نہ تو وہ مسائل کا کوئی حل ڈھونڈیں اور نہ ان کو حل ملے گا اور نہ حکومت یا ریاستی ادارے اس قسم کے حل کو مسلط ہونے دیں گے۔"
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان حکمران جماعت مسلم لیگ ن پر گزشتہ سال کے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں جبکہ پاکستان عوامی تحریک کے قائد طاہر الاقادری ملکی نظام میں اصلاحات اور انقلاب لانے کے اپنے اعلان پر کاربند ہیں۔ انھوں نے بھی وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
دونوں جماعتوں نے گزشتہ ماہ کے وسط میں لاہور سے اپنا احتجاجی مارچ شروع کیا تھا اور اسلام آباد پہنچنے کے بعد یہ لوگ پارلیمان کے سامنے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ اس دوران مظاہرین کی طرف سے وزیراعظم ہاؤس کی طرف پیش قدمی کی کوشش پر ان کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں جس میں تین افراد ہلاک اور پولیس اہلکاروں سمیت سینکڑوں افراد زخمی ہوگئے تھے۔
مظاہرین کی طرف سے پاکستان کے سرکاری ٹی وی پر بھی دھاوا بولا گیا اور اس دوران نصف گھنٹے سے زائد قومی نشریاتی ادارے کی نشریات بھی معطل رہی تھیں۔
مظاہرین کئی روز تک پارلیمان کے سبزہ زار میں بھی خیمہ زن رہے لیکن بعد یہ لوگ واپس شاہراہ دستور پر براجمان ہوگئے۔
ان دونوں جماعتوں کے ساتھ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک جرگہ مذاکرات کرتا چلا آرہا تھا لیکن تاحال سیاسی کشیدگی کا کوئی حل سامنے نہیں آسکا ہے۔
حکومت اور پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتیں وزیراعظم کے استعفے کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکی ہیں کہ احتجاج کرنے والوں کے صرف وہی مطالبات تسلیم کیے جائیں جو آئین و قانون کے دائرہ کار میں آتے ہوں۔