پاکستان میں تقریباً دو دہائیوں کے بعد منعقد ہونے والی مردم و خانہ شماری کے عبوری نتائج سامنے آتے ہی مختلف حلقوں خصوصاً سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس پر تحفظات اور اعدادوشمار کو ترتیب دیے جانے کے طریقہ کار پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
رواں سال مارچ سے مئی کے دوران ملک بھر میں مردم و خانہ شماری کا اہتمام کیا گیا تھا جسے مبصرین سمیت تقریباً سب ہی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں نے خوش آئند قرار دیا تھا۔
جمعہ کو محکمہ شماریات کی طرف سے جاری کیے گئے عبوری نتائج کے مطابق ملک کی آبادی گزشتہ 19 برسوں میں 57 فیصد اضافے کے ساتھ 20 کروڑ 77 لاکھ سے زائد ہے جن میں 13 کروڑ سے زائد لوگ دیہی جب کہ ساڑھے سات کروڑ سے زائد شہروں میں بستے ہیں۔
اسی طرح دیہی اور دو دراز علاقوں سے شہروں میں آکر بسنے کے رجحان میں اضافہ تو دیکھا گیا لیکن یہ اضافہ 52 فیصد کے ساتھ سندھ میں ظاہر کیا گیا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ مردم شماری سے جہاں وسائل کی تقسیم اور منصوبہ بندی میں مدد ملتی ہے وہیں مرکز اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر بھی فرق پڑتا ہے۔
سیاسی جماعتوں اور خصوصاً چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماؤں کی طرف سے ان عبوری نتائج پر تحفظات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں مردم شماری کے اعدادوشمار کو مبینہ طور پر سندھ میں مطلوبہ مفادات کے تناظر میں ہیر پھیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ غلط اعدادوشمار کے نتائج بہت منفی ہوں گے۔
مرکز میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیئر راہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے ہفتہ کو مقامی ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں عبوری نتائج پر تحفظات کا اظہار کچھ یوں کیا۔
"میرے حساب سے مردم شماری بالکل ٹھیک طریقے سے نہیں ہوئی، ان لوگوں نے اپنی جان چھڑوائی ہے۔ فوج کے پاس بھی ریکارڈ ہے اور محکمہ شماریات کے پاس بھی ریکارڈ ہیں انھیں ملایا جائے۔ لیکن میرے خیال میں ان (عبوری نتائج) پر کوئی مطمیئن نہیں۔"
قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے ایک مرکزی راہنما اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک بھی کچھ ایسے ہی تحفظات کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری ایک حساس معاملہ ہے جس میں ان کے بقول بدقسمتی سے شفافیت نظر نہیں آتی۔
"مثلاً فاٹا کے بارے میں جو اعدادو شمار ہیں ان پر نظر ڈالیں، جب 2014ء میں فوجی آپریشن ہوا تو صرف شمالی وزیرستان سے جو لوگ بے گھر ہوئے ان میں سے دس لاکھ کا اندراج کیا گیا جب کہ ساری آبادی نہیں نکلی تھی۔ اب سات قبائلی ایجنسیاں اور چھ نیم قبائلی علاقے ہیں تو وہاں کی آبادی یہ 50 لاکھ بتا رہے ہیں جو کہ میرے خیال میں سراسر غلط ہے تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔"
انھوں نے متنبہ کیا کہ بہت جلد اس پر تنازعات بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔