سیاسی مسائل خارجہ امور پر اثر انداز ہو سکتے ہیں: مبصرین

تجزیہ کار ڈاکٹر اشتیاق احمد کہتے ہیں کہ اس سیاسی معاملے کو جلد از جلد حل کرنا چاہیے تاکہ حکومت کی توجہ باہر کے معاملات پر ہو خاص طور پر بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات پر۔"

پاکستان میں جاری سیاسی کشیدگی امور مملکت اور اقتصادی و معاشی معاملات پر تو کسی نہ کسی طرح اثر انداز ہو رہی ہے لیکن اسی دوران ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر پیش آنے والے واقعات بھی پریشان کن ہیں۔

سات روز کے دوران پاکستان نے تین مرتبہ بھارتی سکیورٹی فورسز پر متنازع کشمیر کو منقسم کرنے والی حد بندی لائن اور سیالکوٹ کے قریب ورکنگ باؤنڈری پر فائر بندی کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا جب کہ اس میں اپنے تین شہریوں کی ہلاکت اور تقریباً 10 افراد کے زخمی ہونے کا بھی بتایا۔

بھارت ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کرتا ہے کہ بلااشتعال فائرنگ میں پہل پاکستان کی طرف سے ہوئی۔

اس مہینے میں درجنون بار یہ معاملہ پیش آچکا ہے جس پر دفتر خارجہ اسلام آباد میں نائب بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کر کے احتجاج بھی کر چکا ہے۔

دوسری طرف افغانستان سے ملحقہ سرحد پر بھی دراندازی کی خبریں سامنے آچکی ہیں جب کہ دو روز قبل ہی بلوچستان سے ملحقہ افغان علاقے سے 70 سے 80 شدت پسندوں کے پاکستانی علاقے میں گھسنے پر سکیورٹی فورسز کی ان سے جھڑپ بھی ہو چکی ہے۔

پاکستانی مبصرین ان واقعات کو بالواسطہ طور پر ملک میں جاری سیاسی بحران سے جوڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیاسی مسائل میں الجھی حکومت ان معاملات پر پوری طرح سے توجہ نہیں دے پا رہی۔

آکسفورڈ یونیورسٹی سے منسلک تجزیہ کار ڈاکٹر اشتیاق احمد اس بارے میں کہتے ہیں۔

"نواز شریف حکومت تقریباً ایک ماہ سے سیاسی مسئلے کا شکار تو جب حکومت کی ترجیح اندرونی معاملات کو ٹھیک کرنا بن جائے تو پھر ظاہر ہے کہ وہ ڈپلومیسی پر اتنی توجہ نہیں دے سکتی۔۔۔اس سیاسی معاملے کو جلد از جلد حل کرنا چاہیے تاکہ حکومت کی توجہ باہر کے معاملات پر ہو خاص طور پر بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات پر۔"

لائن آف کنٹرول پر ہونے والے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "جب تک یہ مسئلہ (کشمیر) حل طلب رہے گا تو اس کا اثر ہمیں لائن آف کنٹرول پر نظر آتا رہے گا ویسے ہی جیسے آج کل چل رہا ہے۔"

تاہم ایک بھارتی تجزیہ کار منیش کمار کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ کشمیر کے معاملے پر دونوں ملکوں کے آرا اور سوچ میں اختلاف کی وجہ سے دیگر تصفیہ طلب معاملات بھی حل ہونے کی طرف نہیں بڑھ رہے۔

"اس میں دونوں ملکوں کو اپنی اپروچ کو بدلنا ہوگا کیونکہ اگر کشمیر کو ہی درمیان میں رکھ کر ساری پالیسیاں ہوں گی تو پھر بات چیت کا کوئی مطلب نہیں ہوگا کیونکہ بھارت میں کوئی اسے مانے گا نیں اور پاکستان سے کوئی پھر آگے بات چیت ہوگی نہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے جب بھی دونوں ملکوں کی قیادت تعلقات میں بہتری کی خواہش کا اظہار کرتی ہے اور اس جانب کوئی پیش رفت ہونے لگتی ہے تو کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجا تا ہے جس سے دونوں ہمسایہ ملکوں کے عوام ایک دوسرے سے متعلق شک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم حالیہ دنوں میں یہ کہہ چکے ہیں وہ دونوں ملکوں کے درمیان اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات کے لیے پرعزم ہیں۔

افغانستان کی طرف سے ہونے والی دراندازی پر بھی پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے رواں ہفتے افغان سفیر جانان موسیٰ زئی سے ملاقات میں اپنی تشویش سے انھیں آگاہ کیا تھا۔

انھوں نے اپنے ملک کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن و سلامتی کے لیے اپنی حمایت جاری رکھے گا لیکن کابل اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔