وزیراعظم نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایف سی اہلکاروں کے قتل کو سنگین اور بیہمانہ جرم قرار دیتے ہوئے اب پاکستان اس طرح کی خونریزی کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔
اسلام آباد —
پاکستانی کی سیاسی قیادت نے 23 سکیورٹی اہلکاروں کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے واقعات امن کے لیے شروع کیے گئے مذاکرات پر انتہائی منفی اثر ڈال رہے ہیں۔
طالبان کے ایک گروہ نے اتوار کی شب ایک بیان میں ان اہلکاروں کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا تھا
وزیراعظم نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں ایف سی اہلکاروں کے قتل کو سنگین اور بیہمانہ جرم قرار دیتے ہوئے اب پاکستان اس طرح کی خونریزی کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔
اُنھوں نے کہا کہ حکومت نے کل جماعتی کانفرنس کے فیصلے کی روشنی میں سنجیدگی اور نیک نیتی سے مذاکرات کا عمل شروع کیا اور وزیراعظم کے بیان کے مطابق جب بات چیت کا عمل حوصلہ افزا موڑ پر پہنچا تو اس عمل کو سبو تاژ کر دیا گیا۔
وزیرا عظم کا کہنا تھا کہ یہ ایک نہایت افسوسناک صورتحال ہے جس پر پوری قوم کو دکھ ہے۔
صدر ممنون حسین نے بھی ایک بیان میں 23 ایف سی کے اہلکاروں کے قتل کی شدید مذمت کی.
دفاعی اُمور کے ماہر اور پاکستانی فوج کے سابق ترجمان میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ طالبان اس طرح کے اقدامات سے حکومت پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔
’’ اگر معاملات نہیں طے ہو پا رہے ہیں تو اس قسم کے واقعات سے مڈل رینکنگ آفیسر اور سپاہیوں کے مورال پر اثر ہوتا ہے اور جو علاقہ (سکیورٹی فورسز) نے لیا ہوا ہے اس پر ان کی گرفت کمزور ہوتی جاتی ہے تو یہ نقصان ہو رہا ہے۔‘‘
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ کہتے ہیں کہ طالبان کے حالیہ اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بات چیت میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
’’یہ انتہائی بد قسمتی ہے اور بڑی زیادتی والی بات ہے، اور ہمیں اس کی اُمید نہیں تھی اور میں (طالبان کی) طرف سے اسے مکمل سبوتاژ سمجھ رہا ہوں۔ اگر وہ واقعی بات چیت میں سنجیدہ ہیں تو اس طرح کی حرکتیں (نا کرتے)،2010ء میں جن ایف سی اہلکاروں کو انھو ں نے پکڑا ہوا تھا ان کو (قتل) کر دیا ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ مزاکرات میں سنجیدہ نہیں ہیں۔‘‘
حزب مخالف کی ایک بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کی طرف سے مذاکرات شروع کرنے کے باوجود طالبان کے حملے قابل افسوس ہیں۔
’’دونوں کمیٹیوں نے طالبان سے حملے نا کرنے کو کہا لیکن (طالبان) اس کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں۔‘‘
پاکستان میں دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور مختلف عوامی حلقوں نے بھی یرغمال بنائے گئے 23 ایف سی اہل کاروں کو طالبان کی جانب سے قتل کرنے کے دعوے کی شدید مذمت کی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال میں حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لے کہ دہشت گرد حملوں کے ہوتے ہوئے مذاکرات جاری رہ بھی سکتے ہیں یا نہیں۔
طالبان کے ایک گروہ نے اتوار کی شب ایک بیان میں ان اہلکاروں کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا تھا
وزیراعظم نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں ایف سی اہلکاروں کے قتل کو سنگین اور بیہمانہ جرم قرار دیتے ہوئے اب پاکستان اس طرح کی خونریزی کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔
اُنھوں نے کہا کہ حکومت نے کل جماعتی کانفرنس کے فیصلے کی روشنی میں سنجیدگی اور نیک نیتی سے مذاکرات کا عمل شروع کیا اور وزیراعظم کے بیان کے مطابق جب بات چیت کا عمل حوصلہ افزا موڑ پر پہنچا تو اس عمل کو سبو تاژ کر دیا گیا۔
وزیرا عظم کا کہنا تھا کہ یہ ایک نہایت افسوسناک صورتحال ہے جس پر پوری قوم کو دکھ ہے۔
صدر ممنون حسین نے بھی ایک بیان میں 23 ایف سی کے اہلکاروں کے قتل کی شدید مذمت کی.
دفاعی اُمور کے ماہر اور پاکستانی فوج کے سابق ترجمان میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ طالبان اس طرح کے اقدامات سے حکومت پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔
’’ اگر معاملات نہیں طے ہو پا رہے ہیں تو اس قسم کے واقعات سے مڈل رینکنگ آفیسر اور سپاہیوں کے مورال پر اثر ہوتا ہے اور جو علاقہ (سکیورٹی فورسز) نے لیا ہوا ہے اس پر ان کی گرفت کمزور ہوتی جاتی ہے تو یہ نقصان ہو رہا ہے۔‘‘
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ کہتے ہیں کہ طالبان کے حالیہ اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بات چیت میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
’’یہ انتہائی بد قسمتی ہے اور بڑی زیادتی والی بات ہے، اور ہمیں اس کی اُمید نہیں تھی اور میں (طالبان کی) طرف سے اسے مکمل سبوتاژ سمجھ رہا ہوں۔ اگر وہ واقعی بات چیت میں سنجیدہ ہیں تو اس طرح کی حرکتیں (نا کرتے)،2010ء میں جن ایف سی اہلکاروں کو انھو ں نے پکڑا ہوا تھا ان کو (قتل) کر دیا ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ مزاکرات میں سنجیدہ نہیں ہیں۔‘‘
حزب مخالف کی ایک بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کی طرف سے مذاکرات شروع کرنے کے باوجود طالبان کے حملے قابل افسوس ہیں۔
’’دونوں کمیٹیوں نے طالبان سے حملے نا کرنے کو کہا لیکن (طالبان) اس کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں۔‘‘
پاکستان میں دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور مختلف عوامی حلقوں نے بھی یرغمال بنائے گئے 23 ایف سی اہل کاروں کو طالبان کی جانب سے قتل کرنے کے دعوے کی شدید مذمت کی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال میں حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لے کہ دہشت گرد حملوں کے ہوتے ہوئے مذاکرات جاری رہ بھی سکتے ہیں یا نہیں۔