پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع چارسدہ میں پیر کو نامعلوم مسلح افراد کی انسداد پولیو کی ٹیم پر فائرنگ سے ایک رضا کار زخمی ہو گیا۔
پولیس کے مطابق یہ حملہ شب قدر کے علاقے میں کیا گیا جس کی سرحدیں قبائلی علاقے مہمند ایجنسی سے بھی ملتی ہیں۔
حکام کے مطابق اتوار کو صوبے کے 20 اضلاع میں انسداد پولیو مہم کا آغاز کیا گیا تھا اور پیر کو چارسدہ میں اس مرض سے بچاؤ کے قطرے پلائے جا رہے تھے کہ یہ حملہ کیا گیا۔
عینی شاہدین اور مقامی عہدیداروں کے مطابق حملہ آور موٹر سائیکل پر سوار تھے۔
زخمی رضا کار کو پہلے چارسدہ اور اس کے بعد پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
حملے کے بعد پولیس کی اضافی نفری نے علاقے کو گھیرے میں لے کر مشتبہ افراد کی تلاش شروع کر دی ہے۔
پاکستان میں اس سے قبل بھی انسداد پولیو کی ٹیموں اور اُن کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں پر مہلک حملے ہو چکے ہیں، جس کے بعد اس مرض سے بچاؤ کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے دوران سکیورٹی کے اضافی انتظامات کیے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ حال ہی چارسدہ میں بعض مقامات پر اشتہارات چسپاں کیے گئے تھے کہ پولیو سے بچاؤ کے قطر مضر صحت ہیں۔
اُدھر اطلاعات کے مطابق قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں بھی پیر کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے گئے۔ اس موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
گزشتہ ہفتے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں تقریباً اڑھائی سال بعد حکام نے پہلی مرتبہ کم عمر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے۔
یہ مہم رزمک کے چار دیہاتوں میں چلائی گئی، واضح رہے کہ شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کا دہشت گردوں کے خلاف بھرپور آپریشن جاری ہے اور اس قبائلی علاقے سے چھ لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔
تاہم رزمک کے بہت سے دیہاتوں میں لوگ مقیم ہیں۔
طالبان کی طرف سے پولیو کے قطرے پلانے پر پابندی کے بعد شمالی وزیرستان میں اس مرض سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جا سکے تھے۔
پاکستان میں رواں سال پولیو سے 255 بچے متاثر ہو چکے ہیں، گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے کے دوران ملک میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے اور اس وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے عالمی سطح پر بھی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اب تک پاکستان میں رپورٹ ہونے والے زیادہ تر کیسز کا تعلق قبائلی علاقوں اور شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ سے ہے۔