شمالی اور جنوبی وزیرستان میں جنگجو کمانڈروں نے انسدادِ پولیو کی مہم پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
پاکستان میں انسدادِ پولیو کی تین روزہ ملک گیر مہم آئندہ پیر سے شروع ہو رہی ہے جس میں پانچ سال سے کمر عمر تین کروڑ 40 لاکھ بچوں کو جسمانی معذوری کا سبب بننے والے اس وائرس سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔
لیکن پاکستانی عہدے داروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں جنگجو کمانڈروں کی طرف سے انسدادِ پولیو مہم پر پابندی کے باعث وفاق کے زیرِ انتظام ان قبائلی علاقوں میں دو لاکھ 50 ہزار سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جا سکیں گے۔
قبائلی علاقوں کے سیکرٹری سماجی اُمور آفتاب اکبر درانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وزیرستان کے علاقے میں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی ہر ممکن کوششیں کی جائیں گی۔
’’شاید اس دفعہ ہم شمالی اور جنوبی وزیرستان میں یہ مہم نا چلا سکیں لیکن موقع ملتے ہی جولائی کے مہینے میں ہی اس مہم کو دوبارہ چلانے کی کوشش کریں گے۔‘‘
شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے ایک سرکردہ کمانڈر حافظ گل بہادر جب کہ جنوبی وزیرستان میں کمانڈر مولوی نذیر نے اپنے علاقوں میں پولیو سے بچاؤ سے قطرے پلانے کی سرکاری مہم پر پابندی لگا رکھی ہے۔
ان قبائلی جنگجوؤں کا الزام ہے کہ اس مہم کے ذریعے ان کے ساتھیوں کے بارے میں معلومات جمع کی جاتی ہیں جنھیں امریکی ڈرون حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
آفتاب اکبر درانی کا کہنا ہے کہ فاٹا میں پولیو کی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے شدت پسند عناصر سے مذاکرات کی حکمت عملی پر بھی کام جاری ہے۔
’’نیشنل رورل ڈیولمپنٹ فاؤنڈیشن (این آر ڈی ایف) ہماری ایک این جی او ہے جس کی مالی معاونت اقوام متحدہ کا بچوں کا ادارہ یونیسف کرتا ہے۔ بنیادی طور پر ہماری کمیونیکشن (بات چیت) کی حکمت عملی کی سربراہی بھی یہ ہی تنظیم کرتی ہے۔ اس میں ہر ایجنسی سے علمائے اکرام اور مذہبی رہنماء شامل ہیں جو اس طرح کے عناصر سے مذاکرات کرتے ہیں اور انسداد پولیو کی مہم کو کامیاب بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
اُدھر انسداد پولیو کی قومی مہم کے ترجمان مظہر نثار نے بتایا ہے کہ آئندہ ہفتے شروع ہونے والی مہم کا دائرہ دیگر سرحدی علاقوں تک بھی بڑھایا گیا ہے۔
’’اس دفعہ پاک افغان اور پاک چائنہ سرحد پر خصوصی طور پر پولیو ویکسینشن پوائنٹ بنائے گئے اور جو بچے ان سرحدوں سے گزریں گے انھیں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔‘‘
پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ممالک میں ہوتا ہے جہاں جسمانی معذوری کا باعث بننے والا پولیو وائرس اب بھی موجود ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں انسان کو اپاہج کر دینے والا یہ وائرس نشونما پا رہا ہے۔
لیکن پاکستانی عہدے داروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں جنگجو کمانڈروں کی طرف سے انسدادِ پولیو مہم پر پابندی کے باعث وفاق کے زیرِ انتظام ان قبائلی علاقوں میں دو لاکھ 50 ہزار سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جا سکیں گے۔
قبائلی علاقوں کے سیکرٹری سماجی اُمور آفتاب اکبر درانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وزیرستان کے علاقے میں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی ہر ممکن کوششیں کی جائیں گی۔
’’شاید اس دفعہ ہم شمالی اور جنوبی وزیرستان میں یہ مہم نا چلا سکیں لیکن موقع ملتے ہی جولائی کے مہینے میں ہی اس مہم کو دوبارہ چلانے کی کوشش کریں گے۔‘‘آفتاب اکبر درانی
شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے ایک سرکردہ کمانڈر حافظ گل بہادر جب کہ جنوبی وزیرستان میں کمانڈر مولوی نذیر نے اپنے علاقوں میں پولیو سے بچاؤ سے قطرے پلانے کی سرکاری مہم پر پابندی لگا رکھی ہے۔
ان قبائلی جنگجوؤں کا الزام ہے کہ اس مہم کے ذریعے ان کے ساتھیوں کے بارے میں معلومات جمع کی جاتی ہیں جنھیں امریکی ڈرون حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
آفتاب اکبر درانی کا کہنا ہے کہ فاٹا میں پولیو کی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے شدت پسند عناصر سے مذاکرات کی حکمت عملی پر بھی کام جاری ہے۔
’’نیشنل رورل ڈیولمپنٹ فاؤنڈیشن (این آر ڈی ایف) ہماری ایک این جی او ہے جس کی مالی معاونت اقوام متحدہ کا بچوں کا ادارہ یونیسف کرتا ہے۔ بنیادی طور پر ہماری کمیونیکشن (بات چیت) کی حکمت عملی کی سربراہی بھی یہ ہی تنظیم کرتی ہے۔ اس میں ہر ایجنسی سے علمائے اکرام اور مذہبی رہنماء شامل ہیں جو اس طرح کے عناصر سے مذاکرات کرتے ہیں اور انسداد پولیو کی مہم کو کامیاب بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
اُدھر انسداد پولیو کی قومی مہم کے ترجمان مظہر نثار نے بتایا ہے کہ آئندہ ہفتے شروع ہونے والی مہم کا دائرہ دیگر سرحدی علاقوں تک بھی بڑھایا گیا ہے۔
’’اس دفعہ پاک افغان اور پاک چائنہ سرحد پر خصوصی طور پر پولیو ویکسینشن پوائنٹ بنائے گئے اور جو بچے ان سرحدوں سے گزریں گے انھیں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔‘‘
پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ممالک میں ہوتا ہے جہاں جسمانی معذوری کا باعث بننے والا پولیو وائرس اب بھی موجود ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں انسان کو اپاہج کر دینے والا یہ وائرس نشونما پا رہا ہے۔