انسداد پولیو کی مہم کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ پاکستان کو پولیو کی آخری آماجگاہ نہیں بننے دیا جائے گا اور حکومت نے انسان کو اپاہج کر دینے والے اس وائرس کے مکمل خاتمے کا مصمم ارادہ کر رکھا ہے۔
وزیر اعظم کی معاون خصوصی شہناز وزیر علی کا کہنا ہے کہ رواں سال انسداد پولیو کی مہم کو مزید مؤثر بنا کر اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ملک میں اس وائرس سے متاثرہ بچوں کی تعداد میں اضافے کو روکا جائے۔
اسلام آباد میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ گزشتہ سال ملک میں پولیو کے 197 کیسز تھے جب کہ اس برس اب تک تین کیسز سامنے آچکے ہیں اور ان کے بقول اس موذی وائرس سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر حکمت عملی ترتیب دی جاچکی ہے۔
30 جنوری کو ملک بھر میں شروع کی جانے والی انسداد پولیو مہم کے بارے میں شہناز وزیر علی نے بتایا کہ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر تین کروڑ 27 لاکھ بچے ہیں جنہیں یہ قطرے پلائے جائیں گے۔ اس کے لیے 90 ہزار ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں اور ہر ٹیم میں کم از کم دو افراد شامل ہوں گے۔
انھوں نے بتایا کہ اس مہم کو موثر بنانے کے لیے قانون سازوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کے علاوہ مذہبی حلقوں کا تعاون ازحد ضروری ہے کیوں کہ یہ تمام افراد انسداد پولیو مہم کی افادیت کو اجاگر کر کے لوگوں کو قائل کر سکتے ہیں کہ مذہب ایسے کسی کام سے نہیں روکتا۔ ’’ اس کے لیے ہمارے پاس حرم شریف کے امام ، مسجد اقصیٰ کے امام، اسلامی ملکوں کی تنظیم کے فقہ اکیڈمی کے سربراہ کا بھی تصدیق نامہ ہمارے پاس ہیں‘‘۔
انھوں نے بتایا کہ دنیا میں پولیو سے پاک مسلمان ملکوں نے بھی اپنے ہاں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلا کر ہی اس وائرس پر قابو پایا۔
شہناز وزیر نے کہا کہ پولیو وائرس سے متاثرہ کیسز کی ایک بڑی تعداد کا تعلق پشتون آبادی سے ہیں۔ ’’77 فیصد سے زائد کیسز پشتو اسپیکنگ فیملیز میں ہے ان کے ذہنوں میں ہوتا ہے کہ ہم نے تو قطرے پلا لیے ہیں اس سے کچھ نہیں ہوتا یہ پھر آگئے ہیں، تو یہ بہت ضروری ہے کہ انھیں بتایا جائے کہ آٹھ سے لے کر دس مرتبہ قطرے پلانے لازمی ہیں۔‘‘
پاکستان کا شمار دنیا کے ان چار ممالک میں ہوتا ہے جہاں پولیو کا خطرہ موجود ہے۔ نائجیریا اور افغانستان اب بھی پولیو وائرس کے پھیلاؤ سے متاثر ہیں جب کہ چوتھا ملک بھارت رواں سال فروری میں پولیو سے پاک ملک قرار دیا جانے والا ہے۔ گزشتہ سال اس پڑوسی ملک میں پولیو کا صرف ایک کیس سامنے آیا تھا۔