وفاقی دارالحکومت سے دو روز قبل لاپتا ہونے والے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور یونیورسٹی پروفیسر سلمان حیدر کے بارے میں تاحال پولیس کوئی سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
راولپنڈی میں خواتین کی فاطمہ جناح یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر سلمان حیدر کا اپنے گھر والوں سے آخری رابطہ جمعہ کی شام ہوا تھا، لیکن رات گئے گھر واپس نہ پہنچنے اور ان کے موبائل فون بند ہونے پر اہل خانہ نے پولیس کو اس بارے میں اطلاع دی۔
ہفتہ کو پروفیسر کی گاڑی اسلام آباد کی ایک سڑک کے کنارے کھڑی ملی تھی۔ پولیس نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کر رکھی ہیں لیکن تاحال اس بارے میں ذرائع ابلاغ کو آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے بھی متعلقہ حکام کو سلمان حیدر کی بحفاظت اور جلد بازیابی کے لیے کارروائی تیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سلمان حیدر نہ صرف انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ہیں بلکہ ایک شعلہ بیان شاعر ومقرر بھی ہیں۔
تاحال کسی نے سلمان حیدر کی گمشدگی کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور نہ ہی گھر والوں کو اس بارے میں کسی طرح کی کوئی کال موصول ہوئی ہے۔
فی الوقت اس واقعے کے محرکات کے بارے میں بھی کوئی اطلاع سامنے نہیں آسکی ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان مختلف قسم کے خطرات سے دوچار رہتے ہیں۔ جہاں انھیں اکثر انتہا پسند اور کٹڑ مذہبی حلقوں کی طرف سے دھمکیوں کا سامنا رہتا وہیں بعض اوقات یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ ان کی آواز دبانے کے لیے سکیورٹی ایجنسیز بھی ان پر دباؤ ڈالتی ہیں۔
انسانی حقوق کے ایک کارکن جبران ناصر نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ لوگوں کے لاپتا ہو جانے کے معاملے کو کسی خاص زاویے یا درجے سے دیکھنے کی بجائے اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ تمام شہریوں کے مساوی بنیادی حقوق ہیں جن کی پاسداری کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
"بندہ مستونگ سے غائب ہو یا اسلام آباد سے یا میران شاہ سے وہ انسان ہے، پاکستانی ہے۔ یہ انسانی حقوق کا کارکن تھا، مصنف تھا یا کسی کالعدم تنظیم کا رکن تھا تو جب ہم اس تفریق میں پڑ جاتے ہیں تو پھر ہم انسانی حقوق کی بات نہیں کر رہے ہم مخصوص کٹیگری کے حقوق کی حقوق کی بات کر رہے ہیں ان سب لوگوں کو ایک پاکستانی اور مساوی شہری کے طور پر لے کر چلنا ہوگا ان سب کی بات کرنا ہوگی۔"
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی شخص کے اچانک لاپتا ہو جانے سے اس کے گھر والے دہری مشکل میں پھنس جاتے ہیں کہ زیادہ بات کرنے سے کہیں ان کے لاپتا عزیز کی زندگی خطرے میں نہ پڑ جائے اور اگر وہ بالکل بات نہ کریں تو معاملے میں پیش رفت نہیں ہوتی۔
جبران ناصر کے بقول ایسے بنیادی معاملات پر اختلافات کو بھلا کر انسانی حقوق کے تناظر میں معاملے کو اجاگر کیا جانا ضروری ہے۔