پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کی اس اجلاس میں شرکت افغانستان میں امن و استحکام کے لیے کی جانے والی بین الاقوامی کوششوں میں معاونت کا حصہ ہے۔
اسلام آباد —
وزیراعظم نواز شریف تین روزہ سرکاری دورے پر بدھ کو اسلام آباد سے ترکی پہنچے جہاں وہ انقرہ میں افغانستان اور ترکی کے ہمراہ آٹھویں سہ فریقی سربراہ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔
ترکی، افغانستان اور پاکستان کے درمیان سہ فریقی عمل کا آغاز 2007ء میں ہوا تھا اور اس کا آخری اجلاس دسمبر 2012ء میں انقرہ میں ہوا۔ اجلاس میں سکیورٹی تعاون اور اقتصادی ترقی میں شراکت داری سمیت اہم موضوعات پر اعلی سطح پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔
انقرہ میں ہونے والے آٹھویں سہ فریقی اجلاس کا موضوع " ایشیا کے دل میں پائیدار امن" ہے۔
یہ اجلاس ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب سیاسی و سلامتی کے معاملات اور صدارتی انتخابات کے ضمن میں افغانستان پر پوری دنیا نظر رکھے ہوئے ہے۔
رواں سال ہی کے اواخر میں تمام بین الاقوامی افواج بھی جنگ سے تباہ حال اس ملک سے واپس وطن چلی جائیں گی۔
پاکستان یہ کہتا رہا ہے کہ وہ افغانستان میں پائیدار امن و استحکام کے لیے اپنی بھرپور حمایت جاری رکھے گا۔
سابق سفارتکار قاضی ہمایوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ سہ فریقی کانفرنس موجودہ حالات میں خاصی اہمیت کی حامل ہے۔
’’ ترکی کی بھی افغانستان میں دلچسپی ہے کہ وہاں امن آئے اور پاکستان سے اس کی ہم آہنگی ہے۔۔۔ افغانستان میں امن و استحکام بہت اہم ہے اور میرا خیال ہے کہ تینوں ملک اکٹھے ہو کر اسی بات پر توجہ مرکوز کریں گے کہ غیر ملکی فوجوں کا انخلا ہو رہا ہے اور اس سے کوئی ایسا خلا نہ پیدا ہو اور خانہ جنگی نہ شروع ہو۔‘‘
امریکہ نے افغانستان کے ساتھ ایک مجوزہ سکیورٹی معاہدہ ترتیب دے رکھا ہے لیکن اس پر افغان صدر حامد کرزئی کے تاحال دستخط نہ کرنے کی وجہ سے معاہدہ قابل عمل نہیں ہوسکا ہے۔
اس معاہدے کے تحت 2014ء کے اواخر میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد بھی تقریباً دس ہزار امریکی فوجی افغانستان میں رہتے ہوئے مقامی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں معاونت فراہم کرتے رہیں گے۔
امریکہ کی نیشنل انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ جیمز کلیپر بھی یہ خیال ظاہر کر چکے ہیں کہ افغان صدر کرزئی اس دوطرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرتے نظر نہیں آتے۔
مبصرین ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا مکمل انخلا جنگ سے تباہ حال اس ملک میں سلامتی کی صورتحال کو مزید خراب کر سکتا ہے اور شدت پسند اس صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کی سہ فریقی اجلاس میں شرکت افغانستان میں امن و استحکام کے لیے کی جانے والی بین الاقوامی کوششوں میں معاونت کا حصہ ہے۔
دورے میں وزیراعظم نواز شریف ترکی کے صدر عبداللہ گل اور وزیراعظم رجب طیب اردوان کے علاوہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کریں گے۔
وزیراعظم کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطح وفد بھی ترکی پہنچا ہے جو اپنے ہم منصبوں سے ملاقاتیں کرے گا۔
علاوہ ازیں وزیراعظم نوازشریف ترکی کی قائدین سے ملاقاتوں میں دو طرفہ تعلقات اور اقتصادی تعاون کے فروغ کا جائزہ لیں گے۔ استنبول میں ترکی کی بڑی کاروباری شخصیات سے بھی ان کی ملاقات طے ہے۔
ترکی، افغانستان اور پاکستان کے درمیان سہ فریقی عمل کا آغاز 2007ء میں ہوا تھا اور اس کا آخری اجلاس دسمبر 2012ء میں انقرہ میں ہوا۔ اجلاس میں سکیورٹی تعاون اور اقتصادی ترقی میں شراکت داری سمیت اہم موضوعات پر اعلی سطح پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔
انقرہ میں ہونے والے آٹھویں سہ فریقی اجلاس کا موضوع " ایشیا کے دل میں پائیدار امن" ہے۔
یہ اجلاس ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب سیاسی و سلامتی کے معاملات اور صدارتی انتخابات کے ضمن میں افغانستان پر پوری دنیا نظر رکھے ہوئے ہے۔
رواں سال ہی کے اواخر میں تمام بین الاقوامی افواج بھی جنگ سے تباہ حال اس ملک سے واپس وطن چلی جائیں گی۔
پاکستان یہ کہتا رہا ہے کہ وہ افغانستان میں پائیدار امن و استحکام کے لیے اپنی بھرپور حمایت جاری رکھے گا۔
سابق سفارتکار قاضی ہمایوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ سہ فریقی کانفرنس موجودہ حالات میں خاصی اہمیت کی حامل ہے۔
’’ ترکی کی بھی افغانستان میں دلچسپی ہے کہ وہاں امن آئے اور پاکستان سے اس کی ہم آہنگی ہے۔۔۔ افغانستان میں امن و استحکام بہت اہم ہے اور میرا خیال ہے کہ تینوں ملک اکٹھے ہو کر اسی بات پر توجہ مرکوز کریں گے کہ غیر ملکی فوجوں کا انخلا ہو رہا ہے اور اس سے کوئی ایسا خلا نہ پیدا ہو اور خانہ جنگی نہ شروع ہو۔‘‘
امریکہ نے افغانستان کے ساتھ ایک مجوزہ سکیورٹی معاہدہ ترتیب دے رکھا ہے لیکن اس پر افغان صدر حامد کرزئی کے تاحال دستخط نہ کرنے کی وجہ سے معاہدہ قابل عمل نہیں ہوسکا ہے۔
اس معاہدے کے تحت 2014ء کے اواخر میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد بھی تقریباً دس ہزار امریکی فوجی افغانستان میں رہتے ہوئے مقامی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں معاونت فراہم کرتے رہیں گے۔
امریکہ کی نیشنل انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ جیمز کلیپر بھی یہ خیال ظاہر کر چکے ہیں کہ افغان صدر کرزئی اس دوطرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرتے نظر نہیں آتے۔
مبصرین ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا مکمل انخلا جنگ سے تباہ حال اس ملک میں سلامتی کی صورتحال کو مزید خراب کر سکتا ہے اور شدت پسند اس صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کی سہ فریقی اجلاس میں شرکت افغانستان میں امن و استحکام کے لیے کی جانے والی بین الاقوامی کوششوں میں معاونت کا حصہ ہے۔
دورے میں وزیراعظم نواز شریف ترکی کے صدر عبداللہ گل اور وزیراعظم رجب طیب اردوان کے علاوہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کریں گے۔
وزیراعظم کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطح وفد بھی ترکی پہنچا ہے جو اپنے ہم منصبوں سے ملاقاتیں کرے گا۔
علاوہ ازیں وزیراعظم نوازشریف ترکی کی قائدین سے ملاقاتوں میں دو طرفہ تعلقات اور اقتصادی تعاون کے فروغ کا جائزہ لیں گے۔ استنبول میں ترکی کی بڑی کاروباری شخصیات سے بھی ان کی ملاقات طے ہے۔