پاکستان کے وزیرِ اعطم نے واضح کیا کہ اُن کی حکومت ملک میں امن و استحکام کی خاطر انتہا پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مختلف طریقہ کار بیک وقت استعمال کر رہی ہے، اور سب سے پہلے مذاکراتی عمل کو موقع دیا جا رہا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے ملک کے بندوبستی علاقے میں پہلے مشتبہ امریکی ڈرون حملے پر حکومت کے ردعمل پر مختلف حلقوں کی تنقید مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلامتی اور معیشت دو ایسے اُمور ہیں جن پر ’’سیاست نہیں ہونی چاہیئے‘‘۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع ہنگو میں قائم دارالعلوم مفتاح القرآن پر جمعرات کو علی الصبح ڈرون حملے میں افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے اہم رہنما سمیت کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے، اور وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری ہوئے مذمتی بیان کا متن کم و بیش قبائلی علاقوں میں اس نوعیت کی کارروائیوں کے بعد جاری ہونے والے بیانات جیسا ہی تھا۔
اسلام آباد میں جمعہ کو ’ویژن 2025‘ کے عنوان سے منعقدہ قومی مشاورتی کانفرنس سے خطاب میں وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ ڈرون حملوں پر اُن کی حکومت کے احتجاج کو رسمی قرار دینا درست نہیں، کیوں کہ اُن کے بقول ’’ہم دو غلی پالیسی والے لوگ نہیں‘‘۔
نواز شریف نے اپنے موقف کے دفاع میں کہا کہ گزشتہ ماہ دورہِ واشنگٹن کے موقع پر امریکہ کے صدر براک اوباما سے ملاقات کے فوری بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں اُنھوں نے امریکی رہنما کی موجودگی میں ڈرون حملوں کے موضوع پر بات چیت کا تذکرہ اسی لیے کیا تھا کہ کسی کے ذہن میں اس بارے میں ابہام نا رہے۔
’’تو میں نے بتا دیا سب کو کہ ڈرون کی ان (مسٹر اوباما) سے بات ہوئی ہے اور اُنھوں نے بھی تسلیم کیا، سر ہلایا اس پر۔‘‘
وزیرِ اعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ ڈرون حملوں کا تسلسل تکلیف دہ امر ہے۔
’’پچھلی دفعہ تو ہمارے (امن) مذاکرات بالکل تیار تھے جس سے پہلے ڈرون حملہ ہوا اور اس سے سارے کا سارا عمل دھرے کا دھرا رہ گیا۔ تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ ... یہ ڈرون حملے جو ہیں یہ ہمیں کسی قیمت پر قابل قبول نہیں ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کے ساتھ زیادتی ہے، ظلم ہے۔‘‘
نواز شریف نے واضح کیا کہ اُن کی حکومت ملک میں امن و استحکام کی خاطر انتہا پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مختلف طریقہ کار بیک وقت استعمال کر رہی ہے۔
’’ہم نے پہلا آپشن ڈائیلاگ رکھا، جو میں سمجھتا ہوں کہ کوئی برا آپشن نہیں ہے، اچھا آپشن ہے اور ہم ہر طریقے سے چاہتے ہیں کہ وہ کامیاب ہو۔‘‘
پاک افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں یکم نومبر کو امریکی ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ حکیم اللہ محسود ہلاک ہو گیا تھا، جس کے بعد مجوزہ امن مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار ہے۔
وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس وقت غیر معمولی صورت حال کا سامنا ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔
اُنھوں نے امن و امان اور معاشی بحالی کو بڑے چیلنجز قرار دیا اور کہا کہ علاقائی ممالک دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنا کر خطے میں ترقی کے عمل کو تیز کر سکتے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع ہنگو میں قائم دارالعلوم مفتاح القرآن پر جمعرات کو علی الصبح ڈرون حملے میں افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے اہم رہنما سمیت کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے، اور وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری ہوئے مذمتی بیان کا متن کم و بیش قبائلی علاقوں میں اس نوعیت کی کارروائیوں کے بعد جاری ہونے والے بیانات جیسا ہی تھا۔
اسلام آباد میں جمعہ کو ’ویژن 2025‘ کے عنوان سے منعقدہ قومی مشاورتی کانفرنس سے خطاب میں وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ ڈرون حملوں پر اُن کی حکومت کے احتجاج کو رسمی قرار دینا درست نہیں، کیوں کہ اُن کے بقول ’’ہم دو غلی پالیسی والے لوگ نہیں‘‘۔
نواز شریف نے اپنے موقف کے دفاع میں کہا کہ گزشتہ ماہ دورہِ واشنگٹن کے موقع پر امریکہ کے صدر براک اوباما سے ملاقات کے فوری بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں اُنھوں نے امریکی رہنما کی موجودگی میں ڈرون حملوں کے موضوع پر بات چیت کا تذکرہ اسی لیے کیا تھا کہ کسی کے ذہن میں اس بارے میں ابہام نا رہے۔
وزیرِ اعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ ڈرون حملوں کا تسلسل تکلیف دہ امر ہے۔
’’پچھلی دفعہ تو ہمارے (امن) مذاکرات بالکل تیار تھے جس سے پہلے ڈرون حملہ ہوا اور اس سے سارے کا سارا عمل دھرے کا دھرا رہ گیا۔ تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ ... یہ ڈرون حملے جو ہیں یہ ہمیں کسی قیمت پر قابل قبول نہیں ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کے ساتھ زیادتی ہے، ظلم ہے۔‘‘
نواز شریف نے واضح کیا کہ اُن کی حکومت ملک میں امن و استحکام کی خاطر انتہا پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مختلف طریقہ کار بیک وقت استعمال کر رہی ہے۔
’’ہم نے پہلا آپشن ڈائیلاگ رکھا، جو میں سمجھتا ہوں کہ کوئی برا آپشن نہیں ہے، اچھا آپشن ہے اور ہم ہر طریقے سے چاہتے ہیں کہ وہ کامیاب ہو۔‘‘
پاک افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں یکم نومبر کو امریکی ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ حکیم اللہ محسود ہلاک ہو گیا تھا، جس کے بعد مجوزہ امن مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار ہے۔
وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس وقت غیر معمولی صورت حال کا سامنا ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔
اُنھوں نے امن و امان اور معاشی بحالی کو بڑے چیلنجز قرار دیا اور کہا کہ علاقائی ممالک دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنا کر خطے میں ترقی کے عمل کو تیز کر سکتے ہیں۔