وزیراعظم نے طالبان سے مذاکراتی عمل کے لیے چار رکنی کمیٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی واضح کیا کہ مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ تلخ تجربات کو پس پشت رکھتے ہوئے حکومت نے مذاکرات کو ایک موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لیے اُنھوں نے چار رکنی کمیٹی کا اعلان بھی کیا۔
پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں بدھ کو پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ مکمل نیک نیتی کے ساتھ اس عمل کا آغاز کیا جائے۔
اُنھوں نے واضح کیا کہ مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ ’’مجھے علم ہے کہ آج اگر ریاست طاقت کے ساتھ دہشت گردوں کاخاتمہ کرنا چاہے تو پوری قوم اس کی پشت پر کھڑی ہو گی، تاہم اب جب کہ دوسری طرف سے مذاکرات کی پیش کش سامنے آچکی ہے ہم ماضی کے تلخ تجربات کو پس پشت رکھتے ہوئے پر امن حل کو ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں۔‘‘
وزیراعظم نے طالبان سے مذاکراتی عمل کے لیے چار رکنی کمیٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آگ اور بارود کا کھیل اب ختم ہو جانا چاہیئے۔
’’اس سلسلے میں مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے میں چار رکنی کمیٹی کا اعلان کررہا ہوں جس میں عرفان صدیقی، میجر عامر، رحیم اللہ یوسفزئی اور رستم شاہ مہمند شامل ہوں گے۔ چوہدری نثار وزیر داخلہ جو کہ مذاکراتی عمل کے فوکل پرسن ہیں، کمیٹی کی معاونت کریں گے ۔ میں خود براہ راست مذاکراتی عمل کی نگرانی کروں گا۔‘‘
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ڈرون حملوں کو بنیاد بنا کر شہریوں کو نشانہ بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ معصوم شہریوں کا قتل عام کسی طرح قابل قبول نہیں اور اس صورت حال کو اب مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔
’’ڈرون حملوں کو رکوانے کے لیے حکومت جو کچھ کر سکتی ہے، وہ کر رہی ہے لیکن ہم ان لوگوں کی کارروائیوں سے بھی صرف نظر نہیں کرسکتے جو ڈرون حملوں کو جواز بنا کر بے گناہ پاکستانیوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ کیا ڈرون حملے پاکستان کے عوام کررہے ہیں؟ کیا سکول جانے والے وہ معصوم بچے اس کے ذمہ دار تھے جن کو خود کش حملوں میں مار دیا گیا؟ اس موقف کو اخلاق مسترد کرتا ہے،قانون مسترد کرتا ہے اوردین مسترد کرتا ہے۔‘‘
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت نے کل جماعتی کانفرنس کے فیصلوں کے مطابق اُن عناصر سے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جنہوں نے ہتھیار اُٹھا رکھے ہیں۔ تاہم اُنھوں نے شدت پسندوں کے رد عمل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی پیش کش کے باوجود طالبان نے ناصرف اعلانیہ مذاکرات سے انکار کیا بلکہ مسلسل پاکستانی فوج اور عوام کو اپنا ہدف بنائے رکھا۔
’’میجر جنرل ثنا ءاللہ نیاز ی اور پاک فوج کے جوانوں کو شہید کر دیا گیا اور فخر کے ساتھ اس کی ذمہ داری قبول کی گئی، پشاو ر کے ایک چرچ پر حملہ کیا گیا اور ہمارے بے گناہ مسیحی بہنوں اور بھائیوں کو قتل کر دیاگیا۔ بنوں اور آرے بازار راولپنڈی میں معصوم شہریوں اور پاک فوج کے جوانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ قصہ خوانی بازار پشاور میں قتل عام کیا گیا۔ ہنگو میں اعتزاز حسن اور چھ بچوں کو شہید کیا گیا۔ جو لوگ بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلا کر انہیں عمر بھر کی معذوری سے بچا رہے ہیں، انہیں مارا جارہا ہے۔‘‘
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے باعث دنیا ملک کی ساکھ پر سوال اُٹھا رہی ہے اور پاکستان کے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ملک اور قوم کو دہشت گردوں کا یرغمال نہیں رہنے دیا جا سکتا اس لیے امن کے حصول کی خاطر پوری قوم یکسو ہو چکی ہے۔
اس سے قبل حکومت مذاکرات کی حکمت عملی کے تحت شدت پسندی کے خاتمے کے لیے علمائے دین کی معاونت سے طالبان سے بات چیت کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کر چکی ہے لیکن وہ عمل کامیاب نا ہو سکا۔
حالیہ دنوں میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار سمیت حکومت کے اہم وزراء کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آئے کہ مذاکرات صرف اُن ہی عناصر سے کیے جائیں گے جو ملک کے دستور کو تسلیم کرتے ہیں۔
پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں بدھ کو پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ مکمل نیک نیتی کے ساتھ اس عمل کا آغاز کیا جائے۔
اُنھوں نے واضح کیا کہ مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ ’’مجھے علم ہے کہ آج اگر ریاست طاقت کے ساتھ دہشت گردوں کاخاتمہ کرنا چاہے تو پوری قوم اس کی پشت پر کھڑی ہو گی، تاہم اب جب کہ دوسری طرف سے مذاکرات کی پیش کش سامنے آچکی ہے ہم ماضی کے تلخ تجربات کو پس پشت رکھتے ہوئے پر امن حل کو ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں۔‘‘
وزیراعظم نے طالبان سے مذاکراتی عمل کے لیے چار رکنی کمیٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آگ اور بارود کا کھیل اب ختم ہو جانا چاہیئے۔
’’اس سلسلے میں مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے میں چار رکنی کمیٹی کا اعلان کررہا ہوں جس میں عرفان صدیقی، میجر عامر، رحیم اللہ یوسفزئی اور رستم شاہ مہمند شامل ہوں گے۔ چوہدری نثار وزیر داخلہ جو کہ مذاکراتی عمل کے فوکل پرسن ہیں، کمیٹی کی معاونت کریں گے ۔ میں خود براہ راست مذاکراتی عمل کی نگرانی کروں گا۔‘‘
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ڈرون حملوں کو بنیاد بنا کر شہریوں کو نشانہ بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ معصوم شہریوں کا قتل عام کسی طرح قابل قبول نہیں اور اس صورت حال کو اب مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔
’’ڈرون حملوں کو رکوانے کے لیے حکومت جو کچھ کر سکتی ہے، وہ کر رہی ہے لیکن ہم ان لوگوں کی کارروائیوں سے بھی صرف نظر نہیں کرسکتے جو ڈرون حملوں کو جواز بنا کر بے گناہ پاکستانیوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ کیا ڈرون حملے پاکستان کے عوام کررہے ہیں؟ کیا سکول جانے والے وہ معصوم بچے اس کے ذمہ دار تھے جن کو خود کش حملوں میں مار دیا گیا؟ اس موقف کو اخلاق مسترد کرتا ہے،قانون مسترد کرتا ہے اوردین مسترد کرتا ہے۔‘‘
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت نے کل جماعتی کانفرنس کے فیصلوں کے مطابق اُن عناصر سے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جنہوں نے ہتھیار اُٹھا رکھے ہیں۔ تاہم اُنھوں نے شدت پسندوں کے رد عمل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی پیش کش کے باوجود طالبان نے ناصرف اعلانیہ مذاکرات سے انکار کیا بلکہ مسلسل پاکستانی فوج اور عوام کو اپنا ہدف بنائے رکھا۔
’’میجر جنرل ثنا ءاللہ نیاز ی اور پاک فوج کے جوانوں کو شہید کر دیا گیا اور فخر کے ساتھ اس کی ذمہ داری قبول کی گئی، پشاو ر کے ایک چرچ پر حملہ کیا گیا اور ہمارے بے گناہ مسیحی بہنوں اور بھائیوں کو قتل کر دیاگیا۔ بنوں اور آرے بازار راولپنڈی میں معصوم شہریوں اور پاک فوج کے جوانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ قصہ خوانی بازار پشاور میں قتل عام کیا گیا۔ ہنگو میں اعتزاز حسن اور چھ بچوں کو شہید کیا گیا۔ جو لوگ بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلا کر انہیں عمر بھر کی معذوری سے بچا رہے ہیں، انہیں مارا جارہا ہے۔‘‘
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے باعث دنیا ملک کی ساکھ پر سوال اُٹھا رہی ہے اور پاکستان کے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ملک اور قوم کو دہشت گردوں کا یرغمال نہیں رہنے دیا جا سکتا اس لیے امن کے حصول کی خاطر پوری قوم یکسو ہو چکی ہے۔
اس سے قبل حکومت مذاکرات کی حکمت عملی کے تحت شدت پسندی کے خاتمے کے لیے علمائے دین کی معاونت سے طالبان سے بات چیت کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کر چکی ہے لیکن وہ عمل کامیاب نا ہو سکا۔
حالیہ دنوں میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار سمیت حکومت کے اہم وزراء کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آئے کہ مذاکرات صرف اُن ہی عناصر سے کیے جائیں گے جو ملک کے دستور کو تسلیم کرتے ہیں۔