حزب مخالف کے ضابطہ کار آئین سے مطابقت نہیں رکھتے: فضل الرحمن

فائل فوٹو

حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن کے وضع کردہ ضابطہ کار پر ہونے والی تنقید کو مسترد کیا۔

پاکستان میں حکومت کی حلیف سیاسی جماعتوں نے پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات کے کمیشن کے لیے حزب مخالف کی طرف سے وضع کردہ ضابطہ کار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آئین و قانون سے مطابقت نہیں رکھتے۔

ہفتہ کو اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف نے اتحادی سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ملاقات کی جس میں انھیں تحقیقاتی کمیشن کے لیے حزب مخالف کے ضابطہ کار سے آگاہ کیا اور اس ضمن میں ان سے مشاورت بھی کی گئی۔

ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اتحادی جماعتوں کو حزب مخالف کے ضابطہ کار پر شدید تحفظات ہیں اور اس بارے میں انھوں نے وزیراعظم کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔

"ہم نے ان (وزیراعظم) سے کہا ہے کہ ہم سب متفق ہیں اس بات پر کہ یہ ضابطہ کار صحیح نہیں ہیں اس پر تحفظات ہیں اور یہ قانون و آئین سے مطابقت نہیں رکھتے لیکن آپ چونکہ لیڈ کر رہے ہیں آپ اپنی سطح پر اس پر مزید غور کریں۔"

انھوں نے مزید کہا کہ حلیف جماعتوں نے وزیراعظم کو مکمل اختیار دیا ہے کہ وہ ان ضابطہ کار پر حزب مخالف سے مشاورت کر کے اس کا ان کے بقول سنجیدہ جواب دیں۔

ہفتہ کو ہی ملتان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن کے وضع کردہ ضابطہ کار پر ہونے والی تنقید کو مسترد کیا۔ لیکن ساتھ ہی اس پر مشاورت کے لیے رضامندی کو بھی دہرایا۔

"ہم نے جو ضابطہ کار بنائے ہیں ہم نے قانون پر نظر رکھنے والے لوگوں کی سربراہی میں مرتب کیے ہیں جن کو کہ حکومتی وزرا نے کہا کہ یہ بدنیتی پر مبنی ہیں آپ خود ان کو پڑھیں اگر ان میں کوئی کوتاہی ہے کمی بیشی ہے ہم آپ سے رہنمائی چاہیں گے۔"

وزیراعظم نے حزب مخالف کے مطالبے پر پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ماتحت کمیشن سے کروانے کے لیے عدالت عظمیٰ کو گزشتہ ماہ کے اواخر میں خط لکھ دیا تھا لیکن تاحال اس پر کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔

حکومت نے اس کمیشن کے لیے ضابطہ کار وضع کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے تحت نہ صرف پاناما بلکہ دنیا میں کہیں بھی آف شور کمپنیاں رکھنے والے پاکستانیوں، قرضے معاف کروانے والوں اور غیر قانونی طریقے سے پیسہ بیرون ملک لے جانے والوں کی تحقیقات کی جائیں گے۔

تاہم حزب مخالف نے اسے مسترد کرتے ہوئے اپنے متفقہ ضابطہ کار میں کمیشن کو نوے روز میں تحقیقات مکمل کرنے کا کہتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا آغاز وزیراعظم اور ان کے خاندان سے کیا جائے۔

پاناما پیپرز میں ہونے والے انکشافات کو ایک ماہ ہو چلا ہے لیکن تاحال پاکستان میں اس معاملے پر سیاسی ہلچل کے علاوہ کوئی ٹھوس پیش رفت دیکھنے میں نہیں آسکی ہے جب کہ پاناما پیپرز نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ ہفتے آف شور کمپنیاں اور غیر ملکی اثاثے رکھنے والی مزید شخصیات کی معلومات بھی افشا کرے گا۔