سعودی عرب سمیت کئی عرب اور اسلامی ممالک کی طرف سے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کیے جانے کے بعد مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کے تناظر میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف پیر کو سعودی عرب پہنچ رہے ہیں۔
اس اہم اور ہنگامی دورے میں وزیراعظم کے ہمراہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ سرتاج عزیز سمیت حکومت کے کئی دیگر سینئر اہلکار بھی شامل ہیں۔
گزشتہ ہفتے سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر سمیت کئی اسلامی ملکوں نے دہشت گردی کی حمایت کے الزام پر قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے جس سے خلیجِ فارس میں کشیدگی میں اضافہ ہوگیا تھا۔
قطر دہشت گردی کی حمایت یا کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے ان الزامات کی تردید کرچکا ہے۔
اس کشیدگی میں کمی کے لیے کویت کے امیر ثالثی کی کوشش کر رہے ہیں اور اُنھوں نے گزشتہ ہفتے قطر کا دورہ کر کے وہاں کے امیر سے ملاقات بھی کی تھی۔
پاکستان کے سعودی عرب اور قطر دونوں ہی سے قریبی تعلقات ہیں اور اس تناظر میں خلیجی ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی اور ثالثی کے لیے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے سعودی عرب جانے کا فیصلہ کیا۔
سابق سفیر اور مشرق وسطیٰ کے معاملات سے متعلق تجزیہ کار جاوید حفیظ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان اس بارے میں مثبت کردار تو ادا کر سکتا ہے لیکن اُن کے بقول یہ کردار بہت محدود ہو گا۔
’’پاکستان صرف اخلاقی دباؤ ڈال سکتا ہے، اپنے بھائیوں سے کہہ سکتا ہے کہ حالات کو مزید خراب نہ کریں، علاقے کو غیر مستحکم نہ کریں۔ لیکن پاکستان کے پاس معاشی اور سیاسی اثر نہیں ہے کہ وہ مجبور کر سکے کہ آپ صلح کریں۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ پاکستان کا کردار غیر جانبدارانہ ہو۔
’’پاکستان کا کردار غیر جانبدرانہ رہنا چاہیے، تب ہی ثالثی کی اس کوشش کا مستقبل قریب یا مستقبل بعید میں کوئی نتیجہ نظر آئے گا۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اگر کشیدگی مزید بڑھی تو اس کے اثرات پاکستان پر پڑیں گے کیوں کہ ایک بڑی تعداد میں پاکستانی روزگار کے لیے خلیجی ممالک میں مقیم ہیں۔
سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات میں لاکھوں پاکستانی مقیم ہیں جو سالانہ اربوں ڈالر بطور زرمبادلہ ملک میں بھیجتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے پاکستانی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی نے گزشتہ ہفتے ایک متفقہ قرار دار منظور کی جس میں مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سعودی عرب اور قطر کی حکومت پر زور دیا گیا تھا کہ وہ ان مسائل کے حل کی راہ تلاش کریں اور تحمل کا مظاہرہ کریں۔
ایک روز قبل پاکستان نے ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی اُن خبروں کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا تھا، جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان لگ بھگ 20 ہزار فوجی قطر بھیجے گا۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایسی خبروں کا مقصد پاکستان اور برادری خلیجی اسلامی ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا ہے۔