غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ تازہ اقدامات کے باوجود بھی پیمرا ایک خودمختار ادارے کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب دکھائی نہیں دیتا۔
اسلام آباد —
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے پیمرا کی طرف سے جیو انٹرینمنٹ اور اے آر وائی نیوز کے لائنسنز کو عارضی طور پر معطل کرنے کے بعد اس ادارے کی کارکردگی پر ایک بار پھر بحث شروع ہوگئی ہے۔
ایک دہائی قبل پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کے آغاز کے وقت پیمرا کے نام سے قائم کیے جانے والے خودمختار ادارے کو شروع ہی سے قواعدوضوابط پر موثر عملدرآمد نہ کروانے کا الزام عائد کرتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
حال ہی میں وزارت دفاع نے ایک نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کو ملک کی سلامتی کے اداروں کو بدنام کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے پیمرا سے اس کے خلاف کارروائی کی درخواست کی تھی جس پر کئی ہفتوں کے بعد پیمرا نے اس چینل کا لائنسنس 15 روز کے لیے معطل اور ایک کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔
جمعہ کی شب پیمرا نے جیو انٹرٹینمنٹ کے ایک مارننگ شو میں متنازع مواد دکھانے پر اس کا لائسنس 30 دن کے لیے معطل کرتے ہوئے ایک کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا جب کہ نجی ٹی وی چینل اے آر وائی پر عدلیہ مخالف پروگرام نشر کرنے کی بنا پر اس کا لائسنس 15 روز تک معطل کرنے کا حکم دیا تھا۔
غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ ان تازہ اقدامات کے باوجود بھی پیمرا ایک خودمختار ادارے کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب دکھائی نہیں دیتا۔
سینیئر صحافی مظہرعباس کہتے ہیں جب کوئی معاملہ عدالت میں چلا جاتا ہے یا پھر حکومت یا کسی اور ادارے کی طرف سے کسی ٹی وی چینل سے متعلق "ناراضی" کا اظہار کیا جاتا ہے تو اس کے ردعمل کے طور پر پیمرا کی طرف سے کوئی اقدام نظر آتا ہے جو کہ اس ادارے کی خودمختاری پر ایک سوالیہ نشانہ ہے۔
"پیمرا یا تو ایکشن لیتے ہوئے خوفزدہ ہے اور اس وقت ایکشن لیتا ہے جب یا تو حکومت کسی چینل سےناراض ہوتی ہے یا کوئی دوسرا ادارہ اس چینل سے ناراض ہوتا ہے، تو ہمیں پیمرا اتنا فعال نظر نہیں آتا ہے۔ سارے معاملات میں دیکھیں تو پیمرا نے چیزوں کی پیروی کی ہے خود آگے بڑھ کر کوئی کارروائی نہیں کی۔"
جیو نیوز کے صحافی حامد میر پر اپریل میں کراچی میں ہونے والی فائرنگ کے بعد اس چینل پر فوج کے انٹیلی جنس ادارے اور اس کے سربراہ کو مبینہ طور پر اس حملے میں کسی نہ کسی انداز سے ملوث ہونے کے بارے میں خبریں نشر کی جاتی رہیں جو کہ حامد میر کے بھائی عامر میر کی طرف سے عائد کردہ الزامات پر مبنی تھیں۔
جیو نیوز کی عارضی معطلی کے فیصلے میں بھی پیمرا کے سرکاری اور نجی ارکان میں اختلافات دیکھنے میں آئے تھے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پیمرا کے ارکان میں سرکاری لوگوں کے علاوہ نجی ارکان کا انتخاب بھی حکومت کی طرف سے کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی خودمختاری کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا ہے۔
سینیئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ اس ادارے کی سربراہی کسی بھی سینیئر جج کے پاس ہونی چاہیے اور اس کے ارکان میں ذرائع ابلاغ سے وابستہ تجربہ کار افراد کو شامل کیا جانا چاہیے۔
تاہم وفاقی حکومت کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ پیمرا ایک خودمختار ادارہ ہے جو اپنے اختیارات کے مطابق فیصلے کرنے کا مجاز ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ حکومت کی ہدایت کے مطابق ایک ایسی کمیٹی کی تشکیل کے لیے مشاورت کر رہے ہیں جو کہ میڈیا کے لیے ایک ضابطے کا تعین کرے گی۔
ایک دہائی قبل پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کے آغاز کے وقت پیمرا کے نام سے قائم کیے جانے والے خودمختار ادارے کو شروع ہی سے قواعدوضوابط پر موثر عملدرآمد نہ کروانے کا الزام عائد کرتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
حال ہی میں وزارت دفاع نے ایک نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کو ملک کی سلامتی کے اداروں کو بدنام کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے پیمرا سے اس کے خلاف کارروائی کی درخواست کی تھی جس پر کئی ہفتوں کے بعد پیمرا نے اس چینل کا لائنسنس 15 روز کے لیے معطل اور ایک کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔
جمعہ کی شب پیمرا نے جیو انٹرٹینمنٹ کے ایک مارننگ شو میں متنازع مواد دکھانے پر اس کا لائسنس 30 دن کے لیے معطل کرتے ہوئے ایک کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا جب کہ نجی ٹی وی چینل اے آر وائی پر عدلیہ مخالف پروگرام نشر کرنے کی بنا پر اس کا لائسنس 15 روز تک معطل کرنے کا حکم دیا تھا۔
غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ ان تازہ اقدامات کے باوجود بھی پیمرا ایک خودمختار ادارے کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب دکھائی نہیں دیتا۔
سینیئر صحافی مظہرعباس کہتے ہیں جب کوئی معاملہ عدالت میں چلا جاتا ہے یا پھر حکومت یا کسی اور ادارے کی طرف سے کسی ٹی وی چینل سے متعلق "ناراضی" کا اظہار کیا جاتا ہے تو اس کے ردعمل کے طور پر پیمرا کی طرف سے کوئی اقدام نظر آتا ہے جو کہ اس ادارے کی خودمختاری پر ایک سوالیہ نشانہ ہے۔
"پیمرا یا تو ایکشن لیتے ہوئے خوفزدہ ہے اور اس وقت ایکشن لیتا ہے جب یا تو حکومت کسی چینل سےناراض ہوتی ہے یا کوئی دوسرا ادارہ اس چینل سے ناراض ہوتا ہے، تو ہمیں پیمرا اتنا فعال نظر نہیں آتا ہے۔ سارے معاملات میں دیکھیں تو پیمرا نے چیزوں کی پیروی کی ہے خود آگے بڑھ کر کوئی کارروائی نہیں کی۔"
جیو نیوز کے صحافی حامد میر پر اپریل میں کراچی میں ہونے والی فائرنگ کے بعد اس چینل پر فوج کے انٹیلی جنس ادارے اور اس کے سربراہ کو مبینہ طور پر اس حملے میں کسی نہ کسی انداز سے ملوث ہونے کے بارے میں خبریں نشر کی جاتی رہیں جو کہ حامد میر کے بھائی عامر میر کی طرف سے عائد کردہ الزامات پر مبنی تھیں۔
جیو نیوز کی عارضی معطلی کے فیصلے میں بھی پیمرا کے سرکاری اور نجی ارکان میں اختلافات دیکھنے میں آئے تھے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پیمرا کے ارکان میں سرکاری لوگوں کے علاوہ نجی ارکان کا انتخاب بھی حکومت کی طرف سے کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی خودمختاری کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا ہے۔
سینیئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ اس ادارے کی سربراہی کسی بھی سینیئر جج کے پاس ہونی چاہیے اور اس کے ارکان میں ذرائع ابلاغ سے وابستہ تجربہ کار افراد کو شامل کیا جانا چاہیے۔
تاہم وفاقی حکومت کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ پیمرا ایک خودمختار ادارہ ہے جو اپنے اختیارات کے مطابق فیصلے کرنے کا مجاز ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ حکومت کی ہدایت کے مطابق ایک ایسی کمیٹی کی تشکیل کے لیے مشاورت کر رہے ہیں جو کہ میڈیا کے لیے ایک ضابطے کا تعین کرے گی۔