پروفیسر میر بحر کے بقول تھر میں آزادانہ گھومنے والے تمام موروں کو بیماری سے بچانے کے لیے ان کی آماجگاہوں کے قریب پانی اور ان کے لیے خوراک میں دوا ملا دینے سے صورتحال میں بہتری ممکن ہے۔
پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ میں غیر جانبدار ماہرین نے متنبہ کیا کہ حالیہ دنوں میں تھر کے علاقے میں صحرائی موروں میں پھیلنے والی پرندوں کی بیماری پر قابو پانے کے لیے فوری اور بڑے پیمانے پر اقدامات نہ کیے گئے تو یہ وبائی شکل اختیار کرسکتی ہے۔
گزشتہ ماہ سے سندھ کے علاقے تھر میں موروں کی اموات کی خبریں منظر عام پر آنا شروع ہوئی تھیں اور مردہ موروں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہوتا چلا گیا۔
زرعی یونیورسٹی سندھ ٹنڈوجام کے شعبہ حیوانات کے مطابق رانی کھیت کی یہ بیماری بظاہر پالتوپرندوں یعنی مرغیوں وغیرہ سے ان موروں میں منتقل ہوئی جو دیکھتے ہی دیکھتے پھیلتی چلی گئی۔
شعبہ حیوانات کے سربراہ پروفیسر کے بی میر بحر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے ادارے نے اپنی مدد آپ کے تحت کچھ اقدامات کیے جن کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے۔
’’ ہم نے مثال کے لیے وہاں سے دو بیمار اٹھائے اپنے پاس لے آئے ایک ہفتہ ان کی دیکھ بھال کی وہ ثبوت کے طور پر کھڑے ہیں، ٹھیک ہیں۔۔۔ ہم نے ان کو ہاتھوں سے خوراک کھلائی ہاتھ سے پانی پلایا دوائی ملا ہوا۔‘‘
پروفیسر میر بحر کے بقول ان کی کوششیں اپنی جگہ لیکن تھر میں آزادانہ گھومنے والے تمام موروں کو اس بیماری سے بچانے کے لیے ان کی آماجگاہوں کے قریب پانی اور ان کے لیے خوراک میں دوا ملا دینے سے صورتحال میں بہتری ممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پالتو یا گھریلو پرندوں میں تو اس بیماری کو قابو کیا جاسکتا ہے لیکن جنگلی پرندوں میں اس کا تدارک بہت مشکل ہوتا ہے۔ تاہم وہ پرامید ہیں کہ اگر ابھی سے متعلقہ محکمے اس ضمن میں کوششیں تیز کردیں تو بہت سے موروں کو بچایا جاسکتا ہے اور ان کے بقول اگر یہ بیماری پھیل جاتی ہے تو اس پر قابو پانا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔
’’بہتری کی امید ہے بہت سے مور بچ جائیں گے ابتدائی مرحلے والے۔۔۔۔لیٹر اسٹیج میں کوئی امید نہیں۔‘‘
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سندھ کے اس علاقے میں تقریباً پچاس ہزار مور پائے جاتے ہیں۔
ادھر محکمہ جنگلی حیات سندھ کے عہدیداروں نے مردہ موروں کی تعداد سے متعلق ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف مبالغہ آرائی ہے۔
محکمے کے ایک عہدیدار تاج محمد شیخ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے اہلکار طبی عملے کے ساتھ علاقے کا معائنہ کرنے نکلتے ہیں اور جہاں سے بھی انھیں کسی بیمار مور کی اطلاع ملتی ہے وہ اس پر کارروائی کرتے ہیں۔
’’ہماری ٹیمیں پورے علاقے میں ہیں ان کے ساتھ ڈاکٹر بھی ہے اور صورتحال کافی بہتر ہے اب پہلے سے۔‘‘
ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ یہ رانی کھیت کی بیماری ہے جو موروں کی موت کا سبب بن رہی ہے تاہم وہ ذرائع ابلاغ میں بتائے جانے والے اعدادوشمار سے متفق نہیں تھے۔
مقامی ذرائع ابلاغ میں مردہ موروں کی تعداد لگ بھگ 150 ہوچلی ہے جب کہ محکمہ جنگلی حیات کے نزدیک اصل تعداد اس سے کہیں کم ہے۔
گزشتہ ماہ سے سندھ کے علاقے تھر میں موروں کی اموات کی خبریں منظر عام پر آنا شروع ہوئی تھیں اور مردہ موروں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہوتا چلا گیا۔
زرعی یونیورسٹی سندھ ٹنڈوجام کے شعبہ حیوانات کے مطابق رانی کھیت کی یہ بیماری بظاہر پالتوپرندوں یعنی مرغیوں وغیرہ سے ان موروں میں منتقل ہوئی جو دیکھتے ہی دیکھتے پھیلتی چلی گئی۔
شعبہ حیوانات کے سربراہ پروفیسر کے بی میر بحر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے ادارے نے اپنی مدد آپ کے تحت کچھ اقدامات کیے جن کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے۔
’’ ہم نے مثال کے لیے وہاں سے دو بیمار اٹھائے اپنے پاس لے آئے ایک ہفتہ ان کی دیکھ بھال کی وہ ثبوت کے طور پر کھڑے ہیں، ٹھیک ہیں۔۔۔ ہم نے ان کو ہاتھوں سے خوراک کھلائی ہاتھ سے پانی پلایا دوائی ملا ہوا۔‘‘
پروفیسر میر بحر کے بقول ان کی کوششیں اپنی جگہ لیکن تھر میں آزادانہ گھومنے والے تمام موروں کو اس بیماری سے بچانے کے لیے ان کی آماجگاہوں کے قریب پانی اور ان کے لیے خوراک میں دوا ملا دینے سے صورتحال میں بہتری ممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پالتو یا گھریلو پرندوں میں تو اس بیماری کو قابو کیا جاسکتا ہے لیکن جنگلی پرندوں میں اس کا تدارک بہت مشکل ہوتا ہے۔ تاہم وہ پرامید ہیں کہ اگر ابھی سے متعلقہ محکمے اس ضمن میں کوششیں تیز کردیں تو بہت سے موروں کو بچایا جاسکتا ہے اور ان کے بقول اگر یہ بیماری پھیل جاتی ہے تو اس پر قابو پانا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔
’’بہتری کی امید ہے بہت سے مور بچ جائیں گے ابتدائی مرحلے والے۔۔۔۔لیٹر اسٹیج میں کوئی امید نہیں۔‘‘
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سندھ کے اس علاقے میں تقریباً پچاس ہزار مور پائے جاتے ہیں۔
ادھر محکمہ جنگلی حیات سندھ کے عہدیداروں نے مردہ موروں کی تعداد سے متعلق ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف مبالغہ آرائی ہے۔
محکمے کے ایک عہدیدار تاج محمد شیخ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے اہلکار طبی عملے کے ساتھ علاقے کا معائنہ کرنے نکلتے ہیں اور جہاں سے بھی انھیں کسی بیمار مور کی اطلاع ملتی ہے وہ اس پر کارروائی کرتے ہیں۔
’’ہماری ٹیمیں پورے علاقے میں ہیں ان کے ساتھ ڈاکٹر بھی ہے اور صورتحال کافی بہتر ہے اب پہلے سے۔‘‘
ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ یہ رانی کھیت کی بیماری ہے جو موروں کی موت کا سبب بن رہی ہے تاہم وہ ذرائع ابلاغ میں بتائے جانے والے اعدادوشمار سے متفق نہیں تھے۔
مقامی ذرائع ابلاغ میں مردہ موروں کی تعداد لگ بھگ 150 ہوچلی ہے جب کہ محکمہ جنگلی حیات کے نزدیک اصل تعداد اس سے کہیں کم ہے۔