جنوبی ایشیا کی دو ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے مابین تعلقات ایک بار پھر کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ ان ملکوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف تند و تیز بیانات ہیں۔
جمعرات کو پاکستان کی پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے بھارتی قیادت کی طرف سے دہائیوں پہلے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے میں کردار ادا کرنے کے اعتراف اور پھر ایک بھارتی وزیر کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی سرزمین پر کارروائی کرنے کی دھمکی کی سخت مذمت کرتے ہوئے قراردادیں متفقہ طور پر منظور کیں۔
ان قراردادوں میں پاکستان کے خلاف ایسے بیانات کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان بھارت کی جارحانہ سوچ کو مسترد کرتا ہے۔
مزید برآں پاکستان کسی بھی حال میں اپنی سرزمین پر جارحیت کی ہرگز اجازت نہیں دے گا اور اس کی مسلح افواج کسی بھی جارحیت کا موثر جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں جس میں پوری قوم مسلح افواج کے ساتھ کھڑی ہے۔
قراردادوں میں عالمی برادری اور اقوام متحدہ پر زور دیا گیا کہ وہ بھارتی قیادت کے ایسے بیانات کا نوٹس لے جس سے خطے کے امن، سلامتی اور استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ ایک ایسے وقت جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے بھارت کی طرف سے اشتعال انگیز بیانات سے انسداد دہشت گردی کی مہم کو نقصان پہنچے گا۔
سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ "پاکستانی افواج دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں اور یہ دنیا کو دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کے لیے کی جارہی ہیں تو ایسے میں اگر پاکستان کے اندر ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں تو یہ انسانیت کے خلاف جرم نہیں تو کیا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو یہ فرق نظر آنا چاہیے کہ بھارت اپنے ہمسایوں سے متعلق کیا پالیسی اپنائے ہوئے جب کہ پاکستان کی اس بارے میں کیا پالیسی ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے حالیہ دورہ بنگلہ دیش میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 1971ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں بھارتی فوجیوں کا خون بھی شامل ہے۔
ابھی وزیراعظم مودی کے بیان کی بازگشت باقی تھی کہ بھارت کے وزیرمملکت برائے اطلاعات و نشریات راجیہ وردھان راٹھور کا یہ بیان منظر عام پر آیا کہ بھارت جہاں چاہے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔ انھوں نے میانمار کی سرحد کے قریب کی گئی ایک کارروائی کے تناظر میں کہا کہ اس میں پاکستان کے لیے بھی پیغام ہے۔
ایک روز قبل پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا تھا کہ ملک کی سرحدی خودمختاری کا ہر قیمت پر دفاع کیا جائے گا اور کوئی بھی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ کرے۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات روز اول ہی سے اتار چڑھاؤ شکار رہے ہیں۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی خواہش کا اظہار تو کرتے آرہے ہیں لیکن تاحال اس میں کوئی ٹھوس اور نتیجہ خیز پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔