پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے قانون سازوں نے یمن کے بحران سے متعلق پارلیمان سے متفقہ طور پر قرارداد کی منظوری پر کہا ہے کہ اس سے حکومت کی سفارت کاری کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے اختتام پر وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ متققہ قرار داد کی منظوری اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اہم اُمور پر تمام سیاسی جماعتیں یکجا ہیں۔
’’(مسئلے کے سفارتی حل کے سلسلے میں پاکستان) پہلے ہی پہل کر چکا ہے، ترکی اور ایران کے ساتھ ہماری بات ہوئی ہے بلکہ وزیراعظم پہلے مسلمان رہنما ہیں جنہوں نے اس حوالے سے پہل کی ہے اور اسی کے تحت ترکی کے صدر اور ایران کے وزیر خارجہ سے بات ہوئی ہے اور امید ہے کہ یہ (بحران) صلح و صفائی سے حل ہو جائے گا۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کی ایک بڑی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پارلیمان نے یمن میں جاری تنازعے کے حل کے لیے سفارتی کاری کو ترجیح دی ہے۔
’’جہاں تک یمن کا تعلق ہے اس حوالے سے ترجیح اس بات کو دی جا رہی ہے کہ ابتدا میں سفارتی کوششوں سے اس بحران کو ختم کیا جائے۔‘‘
اس بحران کے حل کے لیے ایران کے ممکنہ کردار کے بار ے میں بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ’’ایران بحر حال اس خطے کا ایک ملک ہے اس کو بھی شامل کرنا پڑے گا چاہےکسی بھی انداز میں (کیا جائے)۔‘‘
حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری نے کہا کہ اُن کی جماعت کا یہ موقف رہا ہے کہ پاکستان کسی اور ملک میں فوجیں بھیجنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔