'چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کے لیے کمیٹی کا قیام دباؤ میں لانے کی ایک کوشش ہے'

پاکستان کی قومی اسمبلی ایک قرارداد کے ذریعے ایک کمیٹی کا قیام عمل میں لائی ہے جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو معزول کرنے کے لیے ریفرنس تیار کرکے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کرے گی۔

قومی اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد کی روشنی میں بنائی گئی کمیٹی میں محسن نواز رانجھا، خورشید احمد جونیجو، صلاح الدین احمد ایوبی، شہناز بلوچ اور صلاح الدین شامل ہیں۔ یہ کمیٹی سپریم کورٹ کے ججوں کے رویوں کا جائزہ لینے کے بعد ریفرنس تیار کرکے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کرے گی۔

حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی جانب سے چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس لانے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اعلیٰ عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان تناؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے۔

پارلیمان نے سپریم کورٹ کے بعض فیصلوں کے خلاف قرارداد منظور کر رکھی ہیں جب کہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون پر عمل درآمد روکنے کے احکامات دے رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ پارلیمان نے چیف جسٹس کے از خود نوٹس اور بینچ کی تشکیل کے اختیارات محدود کرنے کی قانون سازی بھی کی ہے۔

حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ سپریم کورٹ مبینہ طور پر حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کو اپنے فیصلوں میں غیر معمولی رعایت دے رہی ہے۔

SEE ALSO: توہینِ پارلیمنٹ بل کی منظوری؛ 'پارلیمان اپنی بالادستی منوانا چاہتی ہے'

اگرچہ ماضی میں بھی حکومت کی جانب سے چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کیے گئے ہیں تاہم پارلیمنٹ کی جانب سے ایسے کسی ریفرنس کی یہ پہلی مثال ہوگی۔

اعلیٰ عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان پائے جانے والے تناؤ کے ماحول میں مبصرین قومی اسمبلی کی جانب سے ریفرنس کو چیف جسٹس کو دباؤ میں لانے کی ایک حکومتی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے سابق جج شائق عثمانی کہتے ہیں کہ غیر پیشہ وارانہ عمل پر کسی بھی جج یا چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاسکتا ہے جس کا جائزہ لے کر سپریم جوڈٰشل کونسل فیصلہ کرتی ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پارلیمنٹ کے ذریعے ریفرنس دائر کرنے سے حکومت یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ یہ اقدام پارلیمنٹ کی جانب سے ہے نہ کہ انتظامیہ کی جانب سے۔ وہ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی طرف سے دائر ریفرنس کو زیادہ اہمیت بھی ملے گی۔

جسٹس (ر) شائق عثمانی نے کہا کہ عام طور پر حکومت صدر کےذریعے ریفرنس دائر کرتی ہے مگر قومی اسمبلی سے منظور کردہ قرارداد کی روشنی میں اسپیکر بھی یہ ریفرنس بجھوا سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ذرائع سے حاصل معلومات کی بنیاد پر متعلقہ جج کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے۔

سابق وزیر قانون خالد رانجھا کہتے ہیں کہ حکومت کا یہ اقدام چیف جسٹس کو دباؤ میں لانے کی ایک کوشش ہے اور اس قسم کی حکمت عملی ماضی میں بھی حکومتیں اپناتی رہی ہیں۔

SEE ALSO: پی ڈی ایم کا احتجاج: 'چیف جسٹس کی موجودگی میں شفاف الیکشن نہیں ہوسکتے'


انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگرچہ ماضی میں بھی حکومت چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس لاتی رہی ہے لیکن پارلیمنٹ کے ذریعے ریفرنس دائر کرنے کی یہ ایک نئی روایت ہوگی۔

وہ کہتے ہیں کہ پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مقصد یہ ہوگا کہ پیغام دیا جاسکے کہ یہ حکومتی انتقامی کارروائی نہیں ہے اور یہ کہ ریفرنس کو اس انداز میں تیار کیا جائے کہ اسے ابتدائی طور پر مسترد نہ کیا جاسکے۔

خالد رانجھا نے کہا کہ چیف جسٹس کے حوالے سے ریفرنس کی تیاری کے لیے قومی اسمبلی کی کمیٹی کا قیام درست نہیں ہے۔ ان کے بقول اس اقدام کو کسی ایک شخص کے لیےبنائے گئے قانون سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جس کی قانون اجازت نہیں دیتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے ریفرنس کی تیاری کو پہلے سے قائم پارلیمانی کمیٹی برائے قانون کو بجھوایا جاسکتا تھا نہ کہ ایک نئی کمیٹی تشکیل دی جاتی۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ تاثر گیا کہ حکومت چیف جسٹس کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی کررہی ہے تو عوامی سطح پر اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔