پاکستان میں قانون سازوں نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سعودی عرب اور ایران کے مابین کشیدگی سے متعلق پاکستان کے اصولی موقف پر پارلیمانی قائدین کو اعتماد میں لیں۔
رواں ماہ سعودی عرب نے اپنے ایک شہری شیعہ عالم شیخ نمر النمر کی سزائے موت پر دیگر 46 افراد کے ساتھ عملدرآمد کیا تھا لیکن شیعہ رہنما کی موت پر ایران کی طرف سے شدید ردعمل جب کہ تہران میں سعودی سفارتخانے اور مشہد میں قونصل خانے پر مشتعل حملوں کے بعد سعودی عرب نے ایران سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا۔
پاکستان نے سعودی عرب اور ایران سے قریبی دوستانہ تعلقات ہیں اور اس کا موقف ہے کہ وہ اس تنازع میں جانبداری کی بجائے کشیدگی کو افہام و تفہیم سے ختم کروانے میں اپنا کردار ادا کرنے کو ترجیح دے گا۔
لیکن محض تین روز کے وقفے سعودی وزیر خارجہ اور پھر وزیر دفاع کے دورہ پاکستان سے بعض حلقوں میں یہ چہ مگوئیاں ہورہی تھیں کہ سعودی عرب کے دیگر اتحادیوں کی طرح پاکستان بھی ایران کے خلاف تنازع میں فریق نہ بن جائے۔
تاہم منگل کو مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی کی قائمہ کیمٹی برائے امور خارجہ کو اس معاملے پر حکومتی موقف سے آگاہ کیا۔ یہ اجلاس بند کمرے میں ہونے کی وجہ سے اس کی تفصیلات تو سامنے نہیں آسکیں لیکن ذرائع کے مطابق مشیر خارجہ نے قانون سازوں کو بتایا کہ پاکستان کسی دوسرے ملک میں اپنی فوج نہیں بھیجے گا کیونکہ یہ اس کی پالیسی کے خلاف ہے۔
اجلاس میں شریک حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شاہ محمود قریشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تفصیل بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا۔
"میں صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ کمیٹی نے متفتہ طور پر حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ وزیراعظم پارلیمانی لیڈروں کو او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے قبل، جو کہ 16 جنوری کو ہورہا ہے، اس تنازع پر اعتماد میں لیں۔"
حزب مخالف کی دیگر جماعتوں بشمول سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی کی طرف سے حکومت سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اس معاملے پر ایوان کو اعتماد میں لے اور سعودی وزیروں کے دوروں کے دوران کیے جانے والے فیصلوں سے بھی ایوان کو آگاہ کیا جائے۔
ایسی ہی صورتحال گزشتہ سال کے اوائل میں بھی اس وقت پیدا ہوئی تھی جب سعودی عرب نے اپنے پڑوسی ملک یمن میں ایران کے حمایت یافتہ شیعہ حوثی باغیوں کے خلاف اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر فضائی کارروائیوں کا آغاز کیا۔
ریاض نے اسلام آباد سے اس اتحاد میں شامل ہونے کا کہا تھا لیکن پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی فوج کسی دوسرے ملک میں لڑائی کے لیے نہیں بھیج سکتا لیکن اگر سعودی عرب کی سرزمین یا جغرافیائی سلامتی کو کوئی خطرہ درپیش ہوا تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
سعودی عرب نے گزشتہ ماہ ہی انسداد دہشت گردی کے لیے 30 سے زائد اسلامی ممالک کی شمولیت سے ایک فوجی اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا تھا جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔